021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر، بھائی اور بہن میں میراث کی تقسیم اور ترکہ کے فلیٹ کے کاغذات کا خرچہ
79378میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

خلاصۂ سوال:

میری پھوپھی انیسہ ترمذی مرحومہ کا انتقال 26 دسمبر 2013ء کو ہوا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ والدین، دادا، دادی، نانی، تین بہنوں (عالیہ ترمذی، شمیم ترمذی، وسیم ترمذی) اور ایک بھائی (سید اطہر ترمذی) کا انتقال ان کی زندگی میں ہوگیا تھا، انتقال کے وقت ان کے شوہر، ایک بڑی بہن (نفیسہ ترمذی) اور ایک چھوٹا بھائی (سید انوار ترمذی) زندہ تھے، اب یہ سب بھی انتقال کرگئے ہیں۔

ان کی زندگی میں انتقال کرجانے بھائی سید اطہر ترمذی کے سات بچے، بہن شمیم ترمذی کے دو اور بہن وسیم ترمذی کے تین بچے ہیں۔ ان کے بعد انتقال کرنے والے بھائی سید انوار ترمذی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، اور  بہن نفیسہ ترمذی کی کوئی اولاد نہیں تھی، جبکہ شوہر کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا۔

انیسہ ترمذی مرحومہ کی میراث میں ایک فلیٹ اور مختلف زیورات شامل ہیں۔

  سوالات:

  1. کیا میں اپنی پھوپھی انیسہ ترمذی کی تمام میراث کو صدقہ جاریہ میں استعمال کرسکتا ہوں؟ یا تمام ورثا کی اجازت لینی ہوگی؟
  2. کیا زیورات اور فلیٹ کو کوئی قسطوں میں خرید سکتا ہے؟
  3. اس فلیٹ کو بیچنے سے پہلے ورثا میں سے کسی ایک کے نام پر اس کی پاور منتقل کرانا ضروری ہے، یہ  کاغذات تیار کرانے پر اخراجات آئیں گے، جبکہ ان کے پاس کیش نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے؟
  4. آج کل زمین اور فلیٹ کی فائل بغیر پاور کے کم ریٹ میں بھی فروخت ہوتی ہے، کاغذات پھر خریدار خود بناتا ہے۔ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟ کیا ورثا اس فلیٹ کو اس طرح بیچ سکتے ہیں، اس طرح ان پر کاغذات تیار کرنے کے اخراجات نہیں آئیں گے، لیکن فلیٹ کم قیمت میں فروخت ہوگی۔
  5. میری پھوپھی کے شوہر کے چھوٹے بھائی زندہ ہیں۔ شوہر کی طرف سے پھوپھی کو جو زیورات ملے تھے، کیا وہ ان کو واپس کرنے چاہئیں یا نہیں؟
  6. کیا شوہر کے بھائی کو ساری جائیداد اور چیزیں دینی ہیں یا نہیں؟
  7. میری پھوپھی کی جب شادی ہوئی تھی تو ان کی شادی کے اخراجات اور زیورات ان کے بڑے بھائی نے کیے تھے۔ اب کیا پھوپھی کی یہ ساری میراث اس بڑے بھائی کی اولاد کا حق ہے یا اس میں چھوٹے بھائی کی اولاد کا بھی حق ہے؟
  8. اگر دونوں بھائیوں کی اولاد میں اتفاقِ رائے نہ ہو تو اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہوگا؟
  9. مرحومہ کی بہنوں کی اولاد کو حصہ دینا ہوگا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ مرحومہ کا ترکہ اس کے ورثا کا حق ہےجو ان کو دینا ضروری ہے۔ آپ مرحومہ کا ترکہ صدقہ نہیں کرسکتے۔

(2)۔۔۔ اگر مرحومہ کے ورثا اپنی رضامندی سے کوئی چیز کسی کو قسطوں میں بیچنا چاہیں تو بیچ سکتے ہیں۔     

(4-3)۔۔۔ اس فلیٹ کو ورثا کے نام کرانے اور ان کی طرف پاور منتقل کرانے کے اخراجات ان پر اپنے اپنے حصوں (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے) کے مطابق آئیں گے۔ اگر تمام ورثا اس کو اپنے نام کیے بغیر کم قیمت میں بیچنے پر راضی ہوں اور اور قانونا بھی اس میں کوئی ممانعت نہ ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

(6-5)۔۔۔ شوہر کی طرف سے مرحومہ کو جو زیورات ملکیتا دئیے گئے تھے، وہ شوہر کے بھائی کو واپس نہیں کیے جائیں گے، نہ ہی جائیداد اور دیگر ساری چیزیں اسے دی جائیں گی۔ بلکہ مرحومہ کی میراث میں شوہر کا جتنا حصہ (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے) بنتا ہو، صرف وہ حصہ شوہر کے ورثا کو دیا جائے گا۔

(9-8-7)۔۔۔ بڑے بھائی اطہر ترمذی نے اپنی بہن انیسہ ترمذی کی شادی کے وقت بطورِ احسان اور تبرع ان کو جو کچھ دیا تھا، اب ان کی اولاد وہ چیزیں واپس نہیں لے سکتے۔ نیز انسان کا مال اس کے انتقال کے بعد ورثا کا حق بنتا ہے، اس کی زندگی میں جن رشتہ داروں کا انتقال ہوجائے، وہ اس کی میراث میں حصے کے حق دار نہیں ہوتے۔

 لہٰذا انیسہ ترمذی صاحبہ کے بڑے بھائی اطہر ترمذی صاحب جو انیسہ صاحبہ کی زندگی میں فوت ہوئے تھے، اس کا انیسہ صاحبہ کی میراث میں کوئی حق نہیں۔ اسی طرح اطہر ترمذی صاحب کی اولاد کا بھی انیسہ صاحبہ کی میراث میں کوئی حق نہیں؛ کیونکہ جب مرحوم/ مرحومہ کا اپنا بھائی اس کے انتقال کے وقت زندہ ہو تو پھر بھتیجوں کو کچھ نہیں ملتا۔

انیسہ صاحبہ کی جن تین بہنوں (عالیہ ترمذی، شمیم ترمذی، وسیم ترمذی)  کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا، ان کا بھی انیسہ صاحبہ کی میراث میں کوئی حق نہیں۔ ان تینوں بہنوں کی اولاد کا بھی انیسہ صاحبہ کی میراث میں کوئی حق نہیں۔

شریعت کی روشنی میں انیسہ ترمذی صاحبہ کے ورثا میں صرف اس کا شوہر، چھوٹا بھائی سید انوار ترمذی اور ایک بہن نفیسہ ترمذی شامل ہیں؛ لہٰذا اس کا سارا ترکہ (میراث) فلیٹ، زیورات وغیرہ صرف انہی تین افراد کے درمیان تقسیم ہوگا، جس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر مرحومہ پر کسی کا قرض ہو تو سب سے پہلے ترکہ سے اس کو ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر انہوں نے غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو، اس کو ایک تہائی مال تک پورا کیا جائے، اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کو کل چھ (6) حصوں میں تقسیم کر کے شوہر کو تین (3) حصے دئیے جائیں، بھائی کو دو (2) حصے اور بہن کو ایک (1) حصہ دیا جائے۔

اب چونکہ ان تینوں (شوہر، چھوٹے بھائی سید انوار ترمذی، اور بہن نفیسہ ترمذی) کا بھی انتقال ہوچکا ہے؛ اس لیے ان میں سے ہر ایک کا حصہ، اس کے ورثا کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا، جس کا طریقہ بوقتِ ضرورت ہر ایک کے ورثا کی تفصیل لکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ترکہ سے متعلق کسی بات پر اتفاق یا اختلاف بھی ان تینوں کے ورثا کا ہی معتبر ہوگا، بڑے بھائی اطہر ترمذی صاحب کی اولاد اور تین بہنوں (عالیہ ترمذی، شمیم ترمذی، وسیم ترمذی)  کی اولاد کے اتفاق یا اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔    

حوالہ جات
ردالمحتار(6/ 758):
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقة أو حكما كمفقود أو تقديرا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل، والعلم بجهة إرثه.
رد المحتار(2/ 206):
مطلب في كفن الزوجة على الزوج: قوله (واختلف في الزوج أي وجوب كفن زوجته عليه قوله (عند الثاني) أي أبي يوسف، وأما عند محمد فلا يلزمه لانقطاع الزوجية بالموت. وفي البحر عن المجتبى: أنه لا رواية عن أبي حنيفة، لكن ذكر في شرح المنية عن شرح السراجية   لمصنفها أن قول أبي حنيفة كقول أبي يوسف. قوله (وإن تركت مالا الخ) اعلم أنه اختلفت العبارات في تحرير قول أبي يوسف ففي الخانية و الخلاصة و الظهيرية: أنه يلزمه كفنها وإن تركت مالا وعليه الفتوى. وفي المحيط و التجنيس و الواقعات و شرح المجمع لمصنفه: إذا لم يكن لها مال فكفنها على الزوج وعليه الفتوى.  …. والذي اختاره في البحر لزومه عليه موسرا أو لا، لها مال أو لا؛ لأنه ككسوتها وهي واجبة عليها مطلقا.  ….. الخ
المجلة (ص: 26):
مادة 87:  الغرم بالغنم، يعني أن من ينال نفع شئ يتحمل ضرره.
شرح المجلة للأتاسي (1/246):
فلو کان الوقف دارا فالعمارة علی من له السکنی……کذلك ما في المادة 1308 الملك المشترك متى احتاج إلى التعمير والترميم، يعمره أصحابه بالاشتراك على مقدار حصصهم. لأن منفعة کل منهم علی قدر حصته؛ لما في المادة 1073 أن کلا ینتفع من المال المشترك بقدر حصته.
وفي المادة 1152: التكاليف الأميرية إن كانت لأجل محافظة النفوس، تقسم على عدد الرؤوس،   ولا يدخل في دفتر التوزيع النساء ولا الصبيان. أي لأنها لتحصین الأبدان، وهي علی عدد الرؤس التي یتعرض لها، ولا شیئ علی النساء والصبیان؛ لأنه لا یتعرض لهم (رد المحتار عن الولوالجیة). وإن كانت لمحافظة الأملاك، فتقسم على مقدار الملك؛ لأنها لتحصینه، فکانت کمؤنة حفر النهر.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     17/رجب المرجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب