021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
واقف کی طرف سے نامزد متولی کومعزول کرنا
79459وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

مرحوم سید اطہر علی شاہ نے علی  مسجد پلاٹ نمبر ST-1 سیکٹر ۱۱، 2A سکیم ۳۳، اشرف علی میموریل کوپریٹو ہاوسینگ سوسایٹی بمقام ایوب گوٹھ کی بنیاد رکھی- ۲۰۱۵  میں اسٹرکچر پورا کر کے اطہر صاحب نے مسجد کو سوسایٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت مدرسہ علی اور علی مسجد  کے نام سے دیوبندی مسلک کے ساتھ رجسٹریشن نمبر KAR-2269 مورخہ 2015-3-13 کو رجسٹریشن کرالی۔ جس میں صدر اطہر صاحب اور جنرل سیکٹری اور مہتمم امان اللہ حنیف صاحب  مقررکئے گئے۔

 اُس وقت علاقہ میں زیادہ آبادی نہیں تھی جس کی وجہ سے ایک امام کو نمازوں کے لیے رکھ لیا گیا۔ اطہر شاہ صاحب نے مسجد کے تمام معاملات امان اللہ صاحب جو کہ مہتمم بھی ہیں اُن کے حولے کر دئیے اور امان صاحب نے اپنی وسعت کے مطابق مسجد کی تعمیر  مکمل کرنے کا کام  سنبھال لیا اور تعمیر کراتے رہے، جو کہ ابھی بھی جاری ہے۔

مسجد میں امام صاحب اور مؤذن  کے لیے گھر بھی بنایا  اور اُن کو مسجد کے اندر رہائش بھی  دے دی۔ مسجد کا پلاٹ ۲۵۰۰ گز کا ہے اور مین روڈ پر بھی ہے اس لیے مین روڈ پر ۹ عدد دکانیں بھی بنا دیں۔ امام صاحب کو مسجد کی دکانیں کرائے  پر دینے کا کہہ دیا اور کہا کہ کسی کو دکان اگریمنٹ کے بغیر نہ دی جائے۔ اب گزشتہ ۳ سال سے دکانوں کا کرایا اور اور ۱۰ سال سے جمعہ کے دن ہونے والاچندہ اور مدرسہ کے بچوں  سے  جو بھی رقم آتی ہے وہ امام صاحب جمع کرتے رہے ہیں۔ مدرسہ میں جو صاحب قرآن پڑھاتے ہیں وہ اور مؤذن دونوں امام صاحب کے بھائی ہیں۔

مسجد کے صدر اطہر صاحب کا ا نتقال جنوری ۲۰۲۱ میں ہو گیا اور اب مسجد کے مہتمم  امان اللہ صاحب جوکہ ڈیفنس میں رہتے ہیں اور علی مسجد بہت دور ہےاس لیے وہ  کبھی کبھی علی مسجد جاتے ہیں اورمالی معاملات تمام کے تمام امام صاحب کے سپردکئے ہوئے ہیں۔

اب جبکہ مسجد کے اردگرد بہت آبادی ہو گئی ہے اس لیے امان صاحب اور سوسائٹی کے ممبرزنے یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمیں ایک امام اور رکھنا چائیے!

اِس لیے ۱۶ جنوری ۲۰۲۳ کو امان اللہ صاحب نے امام اقبال سے گزارش کی اب آئندہ  سے ایک جمعہ مولانا اسرار جو کہ وہیں کے نمازی اور رہائشی بھی ہیں،ایک  جمعہ پڑھائیں  گے اور آپ اگلے  جمعہ   پڑھائیں گے، اِس بات پر امام اقبال صاحب نے  انکار کر دیا اور کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔

۲ فروری ۲۰۲۳  کو مسجد کے مہتمم  امان اللہ صاحب نے مسجد علی جا کر مقامی نمازیوں پر مشتمل ایک مسجد کی کمیٹی کا اعلان کیا اور تمام دوکانوں والوں سے عرض کیا کہ اب دکانوں کا کرایا کمیٹی کے ارکان جمع کریں گے۔

۳ فروری ۲۰۲۳ کے جمعہ میں امام صاحب نے کمیٹی سے لا تعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ اطہر شاہ صاحب مسجد میرے حوالے کر کے گئےہیں میں کسی کمیٹی کو نہیں مانتا۔ اور دکانوں کا کرایا بھی میں ہی لوں گا کیونکہ دکان والوں نے میرے ساتھ اگریمنٹ کیا ہے۔

اب اگر امان اللہ یا کمیٹی والے کرایا لینے کی کوشش کریں گے تو ایک لڑائی کی صورت بن سکتی ہے، جو ہم نہیں چاہتے۔

اس تمہید کے بعد آپ سے درج ذیل سوالات معلوم کرنے ہیں:

   1.      ایسے مسجد پر  ناجائز قبضہ کرنے والے  امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

   2.      ایسے امام کو کیا مقامی نمازی ہٹا سکتے ہیں؟

   3.      امام اقبال صاحب کا جمعہ اور دکانوں کا کرایا جمع کرنا  اور بچوں سے قرآن کی تعلیم سے رقم لینا اور اپنی تنخواہ وغیرہ  لینا کیسا ہے؟

   4.      امام اقبال صاحب پیسوں کا حساب کتاب بھی مہتمم کو نہیں دیتے ، اس بارے میں بھی فرما دیں کہ  شرعاً ایسا کرنا کیسا کیا ؟

۵) موجودہ امام کوئی نیامعاہدہ کرنے کاتیارنہیں ہے۔

۶) کیا آیندہ نیا امام رکھنے پر معاہدہ کرناچاہیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرواقعی واقف نے مسجدکےکاغذات میں امان اللہ صاحب کانام متولی کے طورپرلکھوایاہے توایسی صورت میں شرعی اورقانونی طورپرمسجدکے متولی امان اللہ صاحب ہیں ،واقف کی طرف سے نامزد شخص( امان اللہ) ہی اس مسجدکے متولی شمارہوں گے اورمسجدکے تمام معاملات ،جیسے امام اورمؤذن کی تقرری اوردیگرامورکافیصلہ امان اللہ کاحق ہے،امام صاحب کابلاوجہ اس میں رکاوٹ بنناغیرشرعی امرہے،تاہم امان اللہ صاحب کوچاہیے اگرامام صاحب مسجدکے معاملات کوصحیح سنبھال رہے ہیں اورمسجدکی خدمت میں کوئی کمی نہیں کرتے توبلاوجہ کسی اورکوامام مقررنہ کریں،ان کے جائزمطالبات کوسناجائے،بہتریہ ہے فریقین علاقہ کے سمجھداراوردیندارلوگوں سے مشاورت کرکے اس معاملہ کوحل کریں،اس کوذات کامسئلہ نہ بنائیں،اللہ کاگھرہے،اس کوآباد کرنے کی کوشش کریں اورازسرنودوبارہ سے مسجدکے مالی اورانتظامی معاملات کوطے کیاجائے۔

باقی مسجدکی دکانوں سے جوکرایہ وصول ہوتاہے تو امام صاحب اس کےپابندہیں کہ اس کاحساب دیں،وقف کی آمدنی کے بہت سخت احکام ہیں،ایک روپیہ کاحساب رکھنا اوراس کومحفوظ کرناشرعی طورپرضروری ہے،اس میں خیانت کرنابہت سخت گناہ ہے،امام صاحب کواس معاملہ میں سخت رویہ  نہیں اپناناچاہیے،جوبھی معاملات ہیں اس کاحساب دیں گے تولوگوں میں امام صاحب کی عزت میں اضافہ ہی ہوگا۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

     ۲۰/رجب ۱۴۴۴ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب