021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مستقبل کے دھمکی کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی
79471طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

اسلام علیکم میں نے بیوی کو ڈرانے کے لیئے کہہ دیا تھا کہ اب آئندہ ایسا کیا تو تم میری طرف سے آزاد ہواور اگر تم نے ایسا کر کے یہ سمجھا کہ مجھے پتا نہیں چلے گا تو یاد رکھنا ہمارا رشتہ حرام کا ہو جائے گا ،تا کہ وہ ڈر جائے۔اور اس نے وہ کام کر بھی لیا۔مجھے بلکل بھی اس کا علم نہیں تھا کہ ان الفاظ سےطلاق بائن ہو جاتی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ 1 طلاق بائن واقعہ ہو گئی ہے اور اس کے لئےتجدید نکاح کرنا پڑتا ہے۔ میری بیوی گھر سے دور کہیں جاب کرتی ہے۔ پتہ چلنے پر تجدید نکاح کے لئے وہ آ نہیں سکتی تھی۔ مجھے بیوی نے فون پر اختیار دیا اور اس کے الفاظ یہ تھے " میں آپ کو اختیار دیتی ہوں کہ آپ میرا نکاح اتنے حق مہر میں اپنے ساتھ کر لیں"۔ فون بند کرنے کے بعد اسی وقت میں نے 2 گواہوں کے سامنے (جو میرےبالغ سگے بھائی تھے) جا کر اپنی بیوی کا نام لے کر کہا کہ"آپ گواہ رہنا کہ میں نے فلاں کو اتنے حق مہر کے ساتھ اپنے نکاح میں قبول کر لیا ہے "اور یہ نہیں بتایا کہ میری بیوی نے مجھے اپنا وکیل بنایا یا اختیار دیا ہے۔حق مہر بھی ادا کر دیا۔گواہوں کو پتا تھا کہ نکاح کی مجلس ہے۔ کیاوکیل بنانے یا اختیار دیئے جانے کا گواہوں کو بتانا ضروری تھا؟ میراسوال یہ ہے کہ اس طرح نکاح ہو گیا؟ میں نے گواہوں کے سامنے یہ نہیں بولا کہ میری بیوی نے مجھے اپنا وکیل بنایا ہے نیز یہ بھی بتا دیں کہ 1 ہی طلاق بائن واقع ہوئی تھی؟ براہ کرم رہنمائی فرما دیں تا کہ میری تسلی ہو جائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق ماضی یا حال  پر دلالت  کرنے  والے  الفاظ کے ساتھ  واقع  ہوتی ہے ۔ جن الفاظ میں  طلاق دینے کی صرف دھمکی  ہو یا مستقبل  میں  طلاق دینے کے عزم  کا اظہار  ہو  ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

صورت مسؤلہ  میں  اگر  شوہر  نے  بیوی  کو  یہ الفاظ"اب آئندہ ایسا کیا تو تم میری طرف سے آزاد ہواور اگر تم نے ایسا کر کے یہ سمجھا کہ مجھے پتا نہیں چلے گا تو یاد رکھنا ہمارا رشتہ حرام کا ہو جائے گا "محض ڈرانے کے لئے استعمال کئے ہوں اور مقصد ان الفاظ سے طلاق دینا نہ ہوتو چونکہ ان الفاظ میں صرف مبہم وکنایہ الفاظ کے استعمال کے ذریعے ڈرانا مقصد ہے یاآئندہ طلاق    دینے کی دھمکی  اور  ارادہ طلاق  کا اظہار ہے  لہذا ان الفاظ سے  طلاق  واقع نہیں  ہوئی چنانچہ آپ کی بیوی  بدستور  آپ کے نکاح  میں ہے۔

البتہ اگر "ڈرانے"سے مقصود یہ ہو کہ آزاد کے لفظ سے طلاق مراد لے کر اور اس کے ذریعے بیوی کوڈرایا جائے کہ وہ طلاق واقع ہونےسے بچنے کے لئے مذکورہ کام سے احتراز کر ےاوران الفاظ سے مقصود مبہم الفاظ کے ذریعے ڈرانا نہ ہو بلکہ معلق طور پر طلاق دینا ہو تو پھر اس صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہےاور تجدید نکاح ضروری ہے جو کہ سوال میں ذکر کردہ طریقے سے ہوچکا ہے۔

حوالہ جات
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 38)
صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال۔
الفتاوى الهندية (1/ 384)
لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا۔

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 20/رجب/1444ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب