021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بنجر زمین آباد کرنے کا حکم
80227بنجر زمین کو آباد کرنے کے مسائلشاملات زمینوں کے احکام

سوال

ایک شخص گاؤں دیہات سے کراچی شہر میں سن1980ء میں آتا ہے اور یہاں آکر ایک خالی اور ویران جگہ میں پڑاؤ ڈالتا ہے اور وہاں ایک بہت بڑی جگہ اپنے قبضے میں لے کر آباد ہوجاتا ہے،وقت کے ساتھ ساتھ اس جگہ آبادی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے،جس کی وجہ سے اس جگہ کی قیمتیں بھی بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ جتنی زمین پر یہ شخص مالک بنا بیٹھا ہے اس سمیت پورے علاقے میں سرکاری اور پرائیویٹ کسی ادارے یا بندے کا دعوی بھی نہیں ہے کہ یہ جگہ ہماری ہے۔ اس شخص نے وہاں سارے کام خود اپنے پیسوں سے کئے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت اس جگہ کو مکمل آباد کیا ہے،اس کے بعد اس نے اپنے بیٹوں میں ایک ایک پلاٹ تقسیم کیا اور کچھ جگہ فروخت بھی کی ہے اور فروخت کرتے وقت خریدنے والے کو یہ ساری تفصیل بتائی ہے اور ہر قسم کی براءت کا بھی اعلان کیا ہے کہ کل کو اگر سرکار یا کوئی نجی شعبہ یا کوئی عام آدمی دعوی کرے گا تو میں کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوں،میں صرف جگہ کی دیکھ بھال کا عوض لے رہا ہوں،لیکن اس کے باجود لینے والے نے بخوشی جگہ لے لی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس شخص کا یوں پراپرٹی بیچنا جائز ہے؟ اور اگر بیچ دی تو وہ پیسے اس کے لئے استعمال کرنا جائز ہے؟ اور کیا اپنے بیٹوں کو اس میں سے حصہ دینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آبادی کے ذریعے بنجر زمین پر ملکیت آنے کے لئے درج ذیل تین شرائط ہیں: ا۔وہ زمین کسی کی ملک میں نہ ہو۔ ۲۔اس زمین سے آس پاس لوگوں کا مفاد عامہ وابستہ نہ ہو۔ ۳۔حکومت کی اجازت سے آباد کی ہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو زمین آباد کرنے کے باوجود ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ لہذا مذکورہ زمین کو اگر ان شرائط کی رعایت رکھ کر آباد کیا گیا ہے تو پھر یہ زمین اس شخص کی ملکیت ہوگی اور اس کے لئے اسے فروخت کرنا اور اس میں سے اپنی اولاد کو حصہ دینا درست ہوگا،لیکن اگر مذکورہ بالا شرائط میں سے کسی شرط کی رعایت نہ رکھی گئی ہوتو پھر آباد کرنے کے باوجود یہ زمین اس شخص کی ملکیت میں داخل نہ ہوگی اور اسے فروخت کرنا یا اس میں سے اپنی اولاد کو حصہ دینا درست نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 431): "(إذا أحيا مسلم أو ذمي أرضا غير منتفع بها –وليست بمملوكة لمسلم ولا ذمي) فلو مملوكة لم تكن مواتا فلو لم يعرف مالكها فهي لقطة يتصرف فيها الإمام ولو ظهر مالكها ترد إليه ويضمن نقصانها إن نقصت بالزرع (وهي بعيدة من القرية إذا صاح من بأقصى العامر) وهو جهوري الصوت بزازية (لا يسمع بها صوته ملكها عند أبي يوسف) وهو المختار كما في المختار وغيره واعتبر محمد عدم ارتفاق أهل القرية به وبه وقالت الثلاثة. قلت: وهذا ظاهر الرواية وبه يفتى كما في زكاة الكبرى ذكره القهستاني وكذا في البرجندي عن المنصورية عن قاضي خان: أن الفتوى على قول محمد فالعجب من الشرنبلالي كيف لم يذكر ذلك فليحفظ (إن أذن له الإمام في ذلك) وقالا يملكها بلا إذنه وهذا لو مسلما فلو ذميا شرط الإذن اتفاقا ولو مستأمنا لم يملكها أصلا اتفاقا –قهستاني". قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :"(قوله وقالا يملكها بلا إذنه) مما يتفرع على الخلاف ما لو أمر الإمام رجلا أن يعمر أرضا ميتة على أن ينتفع بها، ولا يكون له الملك فأحياها لم يملكها عنده، لأن هذا شرط صحيح عند الإمام، وعندهما يملكها ولا اعتبار لهذا الشرط اهـ، ومحل الخلاف: إذا ترك الاستئذان جهلا، أما إذا تركه تهاونا بالإمام كان له أن يستردها زجرا أفاده المكي أي اتفاقا ط، وقول الإمام: هو المختار ولذا قدمه في الخانية، والملتقى كعادتها وبه أخذ الطحاوي وعليه المتون".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/ذی قعدہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے