021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شدیدگرمی میں  مسجدکی جماعت چھوڑکرگھرمیں نماز پڑھنا
80203نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

سوال:السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں مفتیان اکرام اِس مسئلے كے بارے میں كے بہت سے ممالک اور شہروں میں کلائیمٹ چینج کی وجہ سے شدید گرمی پڑ رہی ہے خصوصاً صبح سندھ جس میں سبی دنیا کا سب سے گرم ترین شہر ہے، اس شدید گرمی میں اگر کوئی شخص 5-6 مہینے گھر پر اکیلے نماز پڑھے تو جائز ہے ؟ پھر کچھ شہروں میں Heat waves آتی ہیں، کیا ان دنوں میں گھر پر اکیلے نماز پڑھنا جائز ہے ؟

پہلے دوسرے سوال کا جواب اگر "جائز ہے"ہے تو اِس شدید گرمی میں اگر کوئی شخص باجماعت نماز پڑھے جبکہ اسے معلوم بھی ہوکہ  میں بیمار بھی ہو سکتا ہوں ،ا س کےباوجود نماز پڑھنےلیےجائے تو ااس کو زیادہ ثواب ملا باجماعت نماز پڑھنے کا یا گناہ ملا ؟كہ  پتہ بھی تھا بیمار ہو سکتا ہے،پھر بھی گھر سے باہر گیا اور بیمار ہو گیا۔

            

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مردوں کے لیے  فرض نماز  جماعت کے ساتھ پڑھنا حکماً واجب ہے اور مسجد  میں نماز ادا کرنا بھی حکماً واجب کے درجہ میں ہے، مسجد میں آنے کے بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کےمستقل  گھروں میں نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، چنانچہ  حدیث مبارک میں ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہو جائیں تو (عشاء) کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہو جائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں جو ( بغیر کسی عذر کے)باجماعت نماز  کےلیے حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں۔

واضح رہےکہ مختلف اعذار کی بنا پر جماعت سے نماز پڑھنے کا وجوب  شرعاساقط ہوجاتا ہے،لیکن ان اعذار میں سے فقہاء کرام نے سخت گرمی کوذکر نہیں کیا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ گرمی میں ایک نمازظہر کی آتی ہے، اور ظہر کی نماز میں شرعاً مستحب یہ ہے کہ اس کو تاخیر سے پڑھا جائے،تاکہ گرمی کچھ کم ہوجائے، جب ظہر کو کچھ تاخیر سے پڑھا جائے گا تو گرمی کی شدت کم ہوجائے گی؛ اس لیے اس کو عذر میں شمار نہیں کیا گیا، لیکن اگر کسی جگہ ظہر کی نماز اول وقت میں ہوتی ہو اور گرمی اتنی سخت ہو کہ مسجد میں جماعت کے لیے جانے سے جان کی  ہلاکت یا ناقابلِ برداشت قسم کی تکلیف میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو یا بیمار ہونے یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو توخاص اس وقت ان عذر کی بنا پر  جماعت ترک کرنا جائز ہوگا، لیکن قابلِ برداشت گرمی کی وجہ سے جماعت ترک کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

نیز یہ پہلو سامنے ہو تو گرمی میں بھی مسجد کی جماعت میں حاضر ہونا آسان ہوجائے گا کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرب کی گرمی میں جمعہ کی نماز اولِ وقت میں ادا کیا کرتے تھے، مسجد تنگ اور نیچی ہونے کی وجہ سے لوگ پسینے میں شرابور ہوجاتے تھے، پھر بھی ان پاکیزہ نفوس نے جماعت ترک نہیں کی، رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ سامنے ہو تو عمل آسان ہوجائے گا۔ البتہ مخصوص صورتِ حال درپیش ہو تو اس کا حکم  ذکرکیاجاچکاہے۔

(بحوالہ  فتوی نمبر : 144110201441دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

صورت مسئولہ میں مطلقاتمام نمازوں کو گھرمیں پڑھناتوشرعاجائزنہیں ہوگا،تمام نمازیں مسجدمیں باجماعت اداکرناضروری ہے،ہاں اگردوپہرمیں گرمی کی شد ت کی وجہ سےظہرکی نمازمیں مشکلات ہوں تومذکورہ بالاتفصیل کےمطابق صرف خاص صورت میں ظہرکی نمازگھرمیں پڑھنےکی  گنجائش ہوگی ۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري" 1 / 131:
 حدثنا عبد الله بن يوسف قال أخبرنا مالك عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء۔
 "اعلاء السنن"4/186 :
باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة۔
"قلت: دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلّف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما هم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجبًا آخر ... و أما مایدل علی وجوبها في المسجد فإنهم اتفقوا علی أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعید ۔
"قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي۔کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم"
"رد المحتار"1/ 555):
فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف) أو رجل فقط، ذكره الحدادي (ومفلوج وشيخ كبير عاجز وأعمى) وإن وجد قائدا (ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين  وبرد شديد وظلمة كذلك) وريح ليلاً لا نهارًا۔
قوله: وبرد شديد) لم يذكر الحر الشديد أيضًا، ولم أر من ذكره من علمائنا، ولعل وجهه أن الحر الشديد إنما يحصل غالبًا في صلاة الظهر، وقد كفينا مؤنته بسنية الإبراد، نعم قد يقال: لو ترك الإمام هذه السنة وصلى في أول الوقت كان الحر الشديد عذرًا، تأمل". فقط والله أعلم۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

04/ذیقعدہ     1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب