021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع سلم کاحکم
80248خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک بندے کے پاس کاشت کاری کےلیے ذاتی پیسے نہیں ہیں, وہ اس غرض سے کسی سے پیسے لینا چاہتا ہے تاکہ اپنی زمین میں زراعت کرے اور ایک سال بعد قرض دہندہ کو پیسوں کے بدلے  پھل وغیرہ  دےتو اس کی شرعی فقہی تکییف کیا ہوسکتی ہے؟ مثلا: دس لاکھ روپے لیے اور کہا کہ ایک سال بعد اس پیسوں کے بدلے ایک ٹن پیاز دوں گا ،چاہے وہ اس مزروعہ زمین کے پیاز ہوں یا بازار سے خرید شدہ ہوں، لیکن ایک ٹن پیاز کا عقد بہرحال ہوگیا، تو اس کا حکم کیا ہے؟ کیا یہاں بیع سلم کی صورت بن سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

         یہ معاملہ" بیع سلم "ہے جس کےجائز ہونے کے لئےدرج ذیل شرائط کی پابندی ضروری ہے:

۱۔جوچیز خریدنی ہومعاملہ کرتےوقت اس کی صنف اورکوالٹی وغیرہ اس قدر وضاحت کے ساتھ بیان کردی جائے کہ بعد میں پیاز/گندم  وغیرہ کی بابت،فریقین(خریدار اور فروخت کنندہ) کےدرمیان کسی قسم کےنزاع یا اختلاف کا امکان نہ رہے۔

۲۔پیاز/گندم کانرخ مقرر کرلیا جائے،خواہ وہ نرخ نقدخریداری کے مقابلےمیں زیادہ ہو۔

۳۔سوداکرنے کے بعد خریدار کی طرف سےاسی نشست کےاندر پوری قیمت کی ادائیگی عمل میں لائی جائے۔

۴۔فروخت کنندہ کی طرف سےپیاز یا گندم کی ادائیگی کی میعادایک ماہ سے کم نہ ہو۔

۵۔ پیاز /گندم کی ادائیگی کی تاریخ متعین ہو کہ فلاں دن،فلاں تاریخ  کو پیاز/گندم کی ادائیگی عمل میں لائی جائے گی۔

۶۔ اگر پیاز/گندم کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں خرچے وغیرہ کی مشقت اُٹھانی پڑے تو اس صورت میں پیاز یا گندم کی ادائیگی کی جگہ بھی متعین کر دی جائے۔

۶۔پیاز/ گندم کی خریداری کا معاملہ کرنے کےوقت سے لےکرخریدارکوسپرد کرنے کی مقررہ تاریخ    تک اُسی صنف اور کوالٹی وغیرہ کی پیاز / گندم بازار سےختم(شارٹ) نہ ہو۔

      مذکورہ تفصیل کےمطابق سوال میں ذکر کردہ معاملہ  میں اگرمذکوربالا تمام شرائط کی پابندی کرکے معاملہ کیا جائے تو وہ معاملہ جائز ہوگا اوراس میں نقد کے مقابلے میں جوزائد رقم (منافع) وصول کیا جائے گا وہ سودنہیں کہلائے گا،تاہم اگر ان شرائط میں سے کسی ایک شرط کی پابندی نہ کی گئی توشرعی اعتبار سےوہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
اللباب في شرح الكتاب - (1 / 130)
ولا يصح السلم عند أبي حنيفة إلا بسبع شرائط تذكر في العقد: جنسٍ معلومٍ، ونوعٍ معلومٍ، وصفةٍ معلومةٍ، ومقدارٍ معلومٍ، وأجلٍ معلومٍ، ومعرفة مقدار رأس المال إذا كان مما يتعلق العقد على قدره، كالمكيل والموزون والمعدود، وتسمية المكان الذي يوافيه فيه إذا كان له حملٌ ومؤنةٌ. وقال أبو يوسف ومحمدٌ: لا يحتاج إلى تسمية رأس المال إذا كان معيناً ولا إلى مكان التسليم، ويسلمه في موضع العقد.
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (7 / 159)
ذكر ابن أبي عمرو أن البغدادي أستاذ البخاري قال: إنه مقدر بثلاثة أيام فصاعداً قال: وهو قول أصحابنا رحمهم الله عن أبي الحسن الكرخي أنه ينظر إلى مقدار المسلم فيه وإلى عرف الناس في تأجيل مثله، فإن كان شرط أجلاً يؤجل لمثله في العرف والعادة تجوز السلم ومالا فلا، وعن أبي بكر الرازي رحمه الله أنه قال: أقل مقدار يتعلق به جواز السلم أن يكون زائداً على مجلس العقد ولو بساعة، وعن محمد أنه أدناه بالشهر فصاعداً وعليه الفتوى.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

7/11/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب