021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیمِ میراث میں مناسخہ کی ایک صورت کا حکم
80336تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان ِکرام اس مسلئے کے بارےکہ :

والدہ کی وفات؁۱۹۹۹ ء میں ہوئی ورثاء میں ۲ بیٹے اور۳ بیٹیاں چھوڑیں ،والدہ کی ملکیت میں ایک فلیٹ اور کچھ جیولری،پہنے ہوئے کپڑے،گھر کے برتن اور الیکٹرانک  آئٹم وغیرہ تھے ،والدہ کی وفات کے بعد ان کے استعمال شدہ کپڑے خیرات کر دیئے گئے اور کچھ کپڑے بیٹیوں نے بھائیوں کی رضا مندی سے بانٹ لئے تھے،والدہ نے چونکہ  اپنی زندگی میں  جیولری چھوٹے بیٹے کو دیدی تھی اس لیے وہ تقسیم نہیں کی۔ اس کے علاوہ باقی   گھر کا تمام سامان تقسیم نہیں کیا،لیکن اب وہ جیولری بہنوں کے پاس رکھی ہوئی ہے،کیا اب اس جیولری کی تقسیم ہوگی  یا وہ چھوٹے بیٹے کی ملکیت ہوگی ؟

اس کے بعد ؁۲۰۱۳ء میں بڑے بیٹے کا انتقال ہو گیا،ان کی شادی نہیں ہوئی تھی ان کے ذاتی سامان میں الماری ،فریج ،ویکیوم، ٹیپ ریکا ڈر اور کپڑے وغیرہ تھے اور والدہ کے وقت کا سارا سامان موجود تھا،بہنوں نے گھر کا کچھ سامان خیرات کر دیا،اور باقی سامان جس میں الماری،فرج ٹیپ ریکاڈراورکپڑے وغیرہ سب کی رضا مندی سے آپس میں تقسیم کر لیے، اس کے بعد یکم مارچ ؁۲۰۲۳ ءکو چھوٹے بیٹے کا کراچی میں انتقال ہو گیا،اس سے پہلے وہ جدہ میں مقیم تھے، انہوں نے وہاں ایک فلپائن نژادخاتون کو مسلمان کر کے شادی کرلی تھی،ان سےان کی کوئی اولاد نہیں تھی، ریٹائر ڈ ہونے کے بعد وہ خاتون فلپائن چلی گئ،اور بھائی یہاں کراچی آگئے تھے، اپنی بیوی سے ان کا فون پر رابطہ رہتا تھا، یہ تقریباً 4 سال بیمار رہنے کے بعد یہاں کراچی میں وفات پاگئے اور ان کی ملکیت میں ایک فلیٹ اور والدہ کی طرف سے ملی ہوئی جیولری تھی اور اس کے علاوہ  نقد رقم ، بیڈ، ویل چیئراور  فریج وغیرہ ہے۔

رہنمائی فرمائیں کہ ان چیزوں کی ورثاء میں تقسیم کیسے ہوگی  نیز جو چیزیں آپس میں بانٹ لی تھیں ان کا کیا حکم ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت ِ مسئولہ میں سائل کی  والدہ مرحومہ کے ترکہ  کی شرعی تقسیم اس طرح ہوگی کہ  کل ترکہ سے سب سے پہلے مرحومہ کے تجہیزو تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، مرحومہ کے ذمے  کوئی قرض ہو تو اسے ترکہ سے اداکیا جائے، اس کے بعد اگر مرحومہ نے کسی غیرِ وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ترکہ کے ایک تہائی حصے سے اداکیا جائے، باقی ماندہ ترکہ  کے سات حصے کرکے مندرجہ ذیل نقشہ کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

نوٹ : اولاد نے مرحومہ والدہ کی جو چیزیں صدقہ کی ہیں یا آپس میں تقسیم کی ہیں اگروہ تمام ورثاء کی دلی رضامندی سے کی تھی تو درست ہے۔

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

پہلا بیٹا

2

28.5714

دوسرا بیٹا

2

28.5714

پہلی بیٹی

1

14.2857

دوسری بیٹی

1

14.2857

تیسری بیٹی

1

14.2857

کل

7

100%

                  بڑےبیٹےکی میراث درج ذیل طریقےسےتقسیم ہوگی :

 اس کے بعد جب مرحومہ کے بڑے بیٹے  کاانتقال ہوا تو اس نے اپنی مرحومہ والدہ  کی وراثت میں سے ملنے والے حصے  سمیت اپنی ملکیت میں بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو،یہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے مرحوم کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے ، مرحوم کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو پانچ  حصوں میں تقسیم کرکے مندرجہ ذیل نقشہ کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

چھوٹا بھائی

2

40%

پہلی بہن

1

20%

دوسری بہن

1

20%

تیسری بہن

1

20%

کل

5

100%

چھوٹے بیٹےکی میراث درج ذیل طریقےسےتقسیم ہوگی :

اس کے بعد جب مرحومہ کے چھوٹےبیٹے  کاانتقال ہوا تو اس نے اپنی مرحومہ والدہ  کی وراثت میں سے ملنے والے حصے  سمیت اپنی ملکیت میں بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو،یہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے مرحوم کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے ، مرحوم کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو پانچ  حصوں میں  کرکے مندرجہ ذیل نقشہ کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

بیوی

1

25%

پہلی بہن

1

25%

دوسری  بہن

1

25%

تیسری بہن

1

25%

کل

4

100%

حوالہ جات
القرآن الکریم [النساء: 11
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ .
فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْن.
القرآن الکریم[النساء: 12]
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۱۶؍ذوالقعدۃ  ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے