03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے مکان کی وراثت جو کاغذات میں والدہ کے نام ہے(۱ بیوی، ۳ بیٹے اور ۲ بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم)
80878میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

والد صاحب نے 120 گز کےدو پلاٹ خریدے، ایک کے اپنے اور دوسرے کے والدہ کے نام سے کاغذات بنوائے، چونکہ دونوں پلاٹ پر ایک مکان بنوانا تھا، مگر دونوں پلاٹ الگ الگ نام سے رجسٹرڈ تھے اس لیے ایک مکان نہیں بن سکتا تھا۔ بعد میں KDA سے معلومات کیں تو پتہ چلا دونوں پلاٹ ایک آدمی کے نام ہوں تو دونوں پلاٹ پر ایک مکان بنایا جا سکتا ہے اور اسکا طریقہ بھی انہوں نے خود ہی بتایا کی کوئی ایک آدمی اپنا پلاٹ دوسرے کو گفٹ کر دے جو آسانی سے اور کم خرچے میں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ والد نے اپنا پلاٹ والدہ کے نام گفٹ ڈیڈ کے تحت کر دیا۔ ابتداء میں یہ مکان گراونڈ اور 1 فلور پر مشتمل تھا، بعد میں دوسرا فلور میں نے خود اپنے خرچے پر بنوایا  اور اس وقت میں نے والد اور والدہ کو یہ بات بتا دی تھی کہ جب بھی وراثت تقسیم ہوگی میری لگائی ہوئی کل مالیت میں سے وہ رقم منہا کرنے کے بعد وراثت تقسیم ہوگی، جس پر دونوں نے اتفاق بھی کر لیا تھا، تاہم ہمارے پاس کوئی تحریری کاغذ موجود نہیں ہے۔ اس وقت مجھے شرعی طریقہ معلوم نہیں تھا ۔ والد صاحب کا انتقال 2015 میں ہو چکا اور والدہ  حیات ہیں۔ والد صاحب کی  2بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں۔ اب والدہ اپنی زندگی میں ہی جائیداد کا حصہ کر کے اس فرض سے بھی سبکدوش ہونا چاہ رہی ہیں۔ چونکہ گھر کا سربراہ شرعی طور پر مرد ہوتا ہے اور عورت عمومی طور housewife ہوتی ہے اس لیے ہم سب اور والدہ خود بھی اسکو والد کی ہی جائیداد مانتے اور سمجھتے ہیں۔

 اب سوال یہ ہے کہ مکان فروخت کر کے جو رقم ملے گی اس میں کس تناسب سے کس کو کتنا حصہ ملے گا اور جو رقم میں نے لگائی تھی اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس رقم کو مہنا کر کے وراثت تقسیم ہو گی یا وہ بھی کل وراثت کا حصہ بنے گی یا کوئی اور طریقہ ہو گا۔ زمین بہر حال والد صاحب کی ملکیت ہے اگر چہ تمام کاغذات  مذکورہ بالا حالات کی وجہ سے والدہ کے نام پر ہیں۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ والد کے انتقال کے وقت ان کے والدین یعنی سائل کے دادا ،دادی حیات نہیں تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر واقعتاً والد مرحوم نے مکان والدہ کو تحفہ میں نہیں دیا، صرف کاغذات میں ان کے نام کروایا تھا تو وہ مکان ان کی ملکیت سے نہیں نکلا اور ان کے انتقال کے بعد اب تمام ورثاء کا اس مکان میں حق ہے۔

دوسری منزل کی تعمیر پر جو بھی خرچہ آپ نے کیا تھا وہ بطور قرض تھا، مکان فروخت کر کے جو رقم حاصل ہوگی اس میں سے پہلے وہ رقم نکالی جائے گی جو آپ نے تعمیرات پر لگائی اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔

     وراثت کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم  کے  انتقال کے وقت    ان کی ملک میں منقولہ غیر منقولہ  جائداد، نقدی اور چھو ٹا بڑا جو بھی سامان تھا سب مرحوم  کا ترکہ ہے، اس    میں سے کفن دفن  کا متوسط خرچہ   نکالیں، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان نہ اٹھائے ہوں۔ اس کے بعد  اگر مرحوم   کےذمے کسی   کا   قرض ہو   تو کل مال سے اس کو   ادا  کیاجائے ،اس کے بعد  اگر مرحوم  نے کوئی جائز وصیت کی  ہو تو  تہائی مال (1/3)کی حد تک اس پر عمل  کیاجائے ، اس کے بعد بقیہ مال کے 64حصے کر کے بیوی(سائل کی والدہ) کو 8حصے، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 14،14حصے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 7،7 حصے دیے جائیں۔

وارث

عددی حصہ

فیصدی حصہ

بیوی

8

12.5%

بیٹا

14

21.875%

بیٹا

14

21.875%

بیٹا

14

21.875%

بیٹی

7

10.9375%

بیٹی

7

10.9375%

کل

64

100%

حوالہ جات

۔۔۔

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۱۳/محرم الحرام/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب