03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خطبہ اور نمازِ جمعہ کا حکم
80874نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

نماز جمعہ میں خطبہ کا طویل کرنا اور نماز کا مختصر کرنا کیسا ہے, شرعی اعتبار سے رہنمائی کرکے مشکور وممنون فرمائیں.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نماز جمعہ سے پہلے عربی زبان میں جو خطبہ ہوتاہے وہ جمعہ کے لئے شرط کی حیثیت رکھتاہے، خطبہ کی سنتوں میں یہ بات شامل ہے کہ خطبہ زیادہ طویل نہ دیاجائے ،بلکہ دونوں  خطبے طوالِ مفصل یعنی سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک میں سے کسی سورت کے برابر رہیں، اتنا طویل خطبہ دیناکہ طوال ِمفصل سے بڑھ جائے مکروہ ہے۔

            دونوں خطبوں کو طوالِ مفصل کی کسی سورۃ کے بقدر رکھنا سنت ہے،اس سے دراز کرنا مکروہ ہے ۔ نمازکو دراز کرنا اور خطبہ میں اختصار کرنا ، حدیث شریف میں اسے آدمی کی سمجھداری کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

            مذکورہ حدیث پاک اور دیگر روایتوں کے پیشِ نظر فقہاء کرام رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ نماز میں ایک آیت پڑھنا (چھوٹی ہو یا بڑی) فرض ہے اور سورۂ فاتحہ کے علاوہ تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت پڑھنا واجب ہے۔ اتنی مقدار تلاوت کرنے سے نماز ہوجائے گی ،البتہ جمعہ اورظہر میں طوال مفصل کی کوئی سورۃ یا اتنی مقدار کی کسی سورت کی آیتیں پڑھنا افضل و مستحب ہے۔لہٰذا نماز ِ جمعہ کے مقابلے میں خطبہ مختصر پڑھنا چاہیے ۔

حوالہ جات

صحيح مسلم (2/ 594):

عن واصل بن حيان، قال: قال أبو وائل: خطبنا عمار، فأوجز وأبلغ، فلما نزل قلنا: يا أبا اليقظان لقد أبلغت وأوجزت، فلو كنت تنفست فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «إن طول صلاة الرجل، وقصر خطبته، مئنة من فقهه، فأطيلوا الصلاة، واقصروا الخطبة، وإن من البيان سحرا».

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 265):

الخطبة شرط انعقاد الجمعة في حق المنشئ لتحريمة الجمعة.

الفتاوى الهندية (1/ 147):

تخفيف الخطبتين بقدر سورة من طوال المفصل ويكره التطويل.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 458)::

"(وضم) أقصر (سورة) كالكوثر أو ما قام مقامها، هو ثلاث آيات قصار، نحو {ثم نظر} [المدثر: 21] {ثم عبس وبسر} [المدثر: 22] {ثم أدبر واستكبر} [المدثر: 23] وكذا لو كانت الآية أو الآيتان تعدل ثلاثاً قصاراً...... (قوله: تعدل ثلاثاً قصاراً) أي مثل - {ثم نظر} [المدثر: 21]- إلخ وهي ثلاثون حرفاً، فلو قرأ آيةً طويلةً قدر ثلاثين حرفاً يكون قد أتى بقدر ثلاث آيات..... في الدرر أيضاً حيث قال: وثلاث آيات قصار تقوم مقام السورة وكذا الآية الطويلة، ومثله في الفيض وغيره. وفي التتارخانية: لوقرأ آية طويلة كآية الكرسي أو المداينة البعض في ركعة والبعض في ركعة اختلفوا فيه على قول أبي حنيفة، قيل: لايجوز؛ لأنه ما قرأ آيةً تامةً في كل ركعة، وعامتهم على أنه يجوز؛ لأن بعض هذه الآيات يزيد عن ثلاث قصار أو يعدلها فلاتكون قراءته أقل من ثلاث آيات اهـ وهذا يفيد أن بعض الآية كالآية في أنه إذا بلغ قدر ثلاث آيات قصار يكفي".

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

13/محرم الحرام/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب