80888 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
ایک بندہ سعودی عرب میں کام کرتا ہے، گھریلو جھگڑے کی وجہ سے دو سال اپنی بیوی سے بات نہیں کی تو اس کی بیوی اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی۔ اس کے بھائی نے اس سے کہا کہ اپنی بیوی سے بات کرو، اتنا بڑا جھگڑا تو نہیں ہے، لیکن اس نے بات نہیں کی۔ ادھر لڑکی کی ساس نے لڑکی سے کہا کہ اگر وہ وہ بات نہیں کر رہا تو تم کال کر کے بات کرلو اور اس سے کہیں کہ بچوں کا خرچہ دیں۔ جب لڑکی نے فون کیا اور خرچے کی بات کی تو اس نے کہا کہ اگر دوبارہ خرچہ کی بات کی تو تم کو طلاق دیدوں گا، بیوی نے کہا تمہارے بچے ہیں، میں اور کس سے خرچہ کی بات کروں گی؟ اس نے غصے میں آکر فون پر ہی کہا تجھ کو تین طلاق یعنی کہا تجھے طلاق، طلاق، طلاق۔ اب وہ کہتا ہے کہ میں نے اس کا نام تو نہیں لیا، صرف یہ کہا کہ تین طلاق۔ نیز وہ کہتا ہے کہ اگر میں تین دن مسلسل تین تین طلاقیں دیتا تو پھر طلاق ہوتی۔
اب آپ اس بارے میں راہنمائی فرمائیں کہ کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟ وہ تو بار بار یہی کہہ رہا ہے کہ میں نے اس کا نام نہیں لیا، صرف یہ بولا کہ تم کو تین طلاق یعنی تین بار بولا ہے کہ تم کو طلاق، طلاق، طلاق۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا گناہِ کبیرہ ہے جس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے، لیکن اگر کوئی ایک ساتھ تین طلاق دیدیں تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، تین طلاق واقع ہونے کے لیے تین دن مسلسل تین تین طلاقیں دینا ضروری نہیں، نہ ہی طلاق واقع ہونے کے لیے ہمیشہ بیوی کا نام لینا ضروری ہے، بیوی کو مخاطب کر کے طلاق دینے سے بھی بلا کسی شک و شبہہ کے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے تین بار طلاق دیدی ہے تو اس پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور ان دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی تحلیل کے بغیر ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح ممکن ہے۔ عدت گزرنے کے بعد اگر یہ خاتون کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } الآیة [البقرة: 230]
صحيح البخاري (7/ 42):
حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله! إن رفاعة طلقني فبت طلاقي وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعلك تريدين أن ترجعي إلی رفاعة، لا، حتی یذوق عسیلتك وتذوقي عسیلته.
حدثني محمد بن بشار حدثنا يحيى عن عبيد الله قال حدثني القاسم بن محمد عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.
الدر المختار (3/ 232):
( والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين ) في طهر واحد ( لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه ، أو ) واحدة في ( حيض موطوءة ).. الخ
رد المحتار (3/ 232,233):
( قوله والبدعي ) منسوب إلى البدعة والمراد بها هنا المحرمة لتصريحهم بعصيانه بحر. ( قوله ثلاثة متفرقة ) وكذا بكلمة واحدة بالأولى ، وعن الإمامية : لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالة الحيض لأنه بدعة محرمة ….وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث…….( قوله في طهر واحد ) قيد للثلاث والثنتين ….الخ
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
13/محرم الحرام/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |