81122 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
میں نے ایک پلاٹ پانچ سال کے انسٹالمنٹ پر لیا ہے جس میں سے دو سال ہوگئے ہیں اور تین سال رہتے ہیں۔ پلاٹ لینے کا مقصد اس پر گھر بنا کر رہائش اختیار کرنا ہے، کیونکہ ابھی ہم کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں۔ پلاٹ کی ملکیت میرے پاس ہے، فائل بھی میرے نام ہر ہے، لیکن پلاٹ کی اصل جگہ صرف میپ کے ذریعے ہی دیکھی جا سکتی ہے؛ کیونکہ ابھی وہاں کام چل رہا ہے، اس کے بعد پلاٹ کی اصل لوکیشن کا پتہ چلے گا۔ میں صاحب نصاب ہوں، مجھے یہ بتائیں کہ کیا مجھے اس پلاٹ پر بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی یا نہیں؟ اگر ادا کرنی ہے تو کس حساب سے ادا کرنی ہوگی؟ اور تین سال کی قسطیں رہتی ہیں، کیا وہ مجھ پر قرض ہے اور مجھے اس کو اپنے نصاب میں سے کم کرنا چاہیے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ پلاٹ چونکہ آپ نے آگے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا، بلکہ گھر بنانے کے لیے خریدا ہے، اس لیے اس پر مالِ زکوۃ نہیں اور اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ قسطوں کی صورت میں آپ پر جو قرضہ ہے، اس میں سے صرف ایک سال کی قسطیں نصاب سے منہا کی جائیں گی۔
حوالہ جات
الدر المختار (2/ 272):
(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة…… وشرط مقارنتها لعقد التجارة، وهو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة أو استقراض. ولو نوى التجارة بعد العقد أو اشترى شيئاً للقنية ناوياً أنه إن وجد ربحاً باعه لا زكاة عليه.
حاشية ابن عابدين (2/ 272):
قوله ( كان لها الخ ) لأن الشرط في التجارة مقارنتها لعقدها وهو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة أو استقراض حيث لا مانع على ما يأتي في الشرح مع بيان المحترزات.
عبد اللہ ولی
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
22/ محرم الحرام/ 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |