021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چاررکعات والی نمازمیں تین اور دو رکعات والی نماز میں ایک رکعت پڑھےجانے کاحکم
81365نماز کا بیاننماز کے فرائض و واجبات کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 چاررکعات والی نمازمیں اگر نمازی بھول سے چار کے بجائے تین پڑھ لے یا دو رکعات والی نماز میں دو بجائے ایک رکعت پڑھ لے  تو کیاحکم ہوگا؟ اورجس کو کثر یہ مسئلہ ہوتاہے اس کاکیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

   چار رکعت والی نماز میں اگربھول سے نمازی تین  رکعات پڑھ لے،یادورکعات والی نماز میں ایک رکعت پڑھ لے تو

فرض اداء نہیں ہوگا، اگرچہ آخر میں سجدہ بھی سہو کرلیاجائے،اس لیےکہ سجدہ سہو سے بھولے سے رہ جانے والے واجب کی تلافی توہوسکتی ہے، مگرچھوٹے ہوئے فرض کی تلافی نہیں ہوسکتی۔

اگر کوئی شخص نماز کے دوران رکعات کی تعداد بھول جائے  اور اس کو یاد نہ ہو کہ اس نے چار رکعت پڑھی ہیں یا تین ؟ تو اس کا حکم یہ ہے کہ:

  1.   اگر  اس کا بھولنا پہلی مرتبہ ہوا ہے یا زندگی میں شاذ ونادر ایسا ہوتاہے  تو  اسے نئے سرے سے نماز پڑھنا چاہیے۔
  2.  اوراگراس کو شک ہوتا رہتا ہے اوروہ  رکعتوں کی تعداد بالعموم بھولتی رہتی ہے تو پھراس کو  غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے، یعنی جتنی رکعتیں غالب گمان سے اس کو یاد پڑھنا یاد ہو، اسی قدر رکعتوں کے بارے میں  یہ خیال کرے کہ پڑھ چکا ہے، اگر اس حساب سے تین ہوچکی ہیں تو مزید ایک رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرے اور سجدہ سہو کرے، اور اگر اس کے حساب سے چار رکعت ہوچکی ہیں تو آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے ۔
  3.  اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہوتاہو تو کمی کی جانب اختیار کرے مثلاً کسی کو تین یا چار رکعت میں شک ہوجائے اور یہ شک پہلی مرتبہ نہ ہوا ہو اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے قعدہ کرےاور ایک رکعت مزید پڑھ کر  نماز پوری کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے۔

جس پر سجدسہوکرنا واجب تھا وہ  اگر سجدہ سہو کرنا بھول گیا  اور نماز کا وقت باقی ہے تو اس  کانماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے، اور اگر نماز کا وقت گزرگیا ہو تو اب سجدہ سہو کرنا اس سے ساقط ہوجائے گا ۔

حوالہ جات
وفی الشامیة:
"(وإذا شك) في صلاته (من لم يكن ذلك) أي الشك (عادة له)، وقيل: من لم يشك في صلاة قط بعد بلوغه، وعليه أكثر المشايخ، بحر عن الخلاصة، (كم صلى استأنف) بعمل مناف وبالسلام قاعداً أولى؛ لأنه المحل (وإن كثر) شكه (عمل بغالب ظنه إن كان) له ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل)؛ لتيقنه
(قوله: من لم يكن ذلك عادة له) هذا قول شمس الأئمة السرخسي واختاره في البدائع، ونص في الذخيرة على أنه الأشبه. قال في الحلية: وهو كذلك. وقال فخر الإسلام: من لم يقع له في هذه الصلاة واختاره ابن الفضل.
(قوله: وقيل إلخ) ثمرة الخلاف تظهر فيما لو سها في صلاته أول مرة واستقبل، ثم لم يسه سنين ثم سها، فعلى قول السرخسي يستأنف؛ لأنه لم يكن من عادته وإنما حصل له مرة واحدة والعادة إنما هي من المعاودة أي والشرط أن لايكون معتاداً له قبل هذه الصلاة، وكذا على قول فخر الإسلام، خلافاً لما وقع في السراج من أنه يتحرى كما يتحرى على القول الثالث، كما في البحر. وفي عبارة النهر هنا سهو فاجتنبه.
(
قوله: كم صلى) أشار بالكمية إلى أن الشك في العدد، فلو في الصفة كما لو شك في ثانية الظهر أنه في العصر وفي الثالثة أنه في التطوع وفي الرابعة أنه في الظهر، قالوا: يكون في الظهر، ولا عبرة بالشك، وتمامه في البحر.
(
قوله: استأنف بعمل مناف إلخ) فلايخرج بمجرد النية، كذا قالوا. وظاهره أنه لا بد من العمل، فلو لم يأت بمناف وأكملها على غالب ظنه لم تبطل إلا أنها تكون نفلاً ويلزمه أداء الفرض، ولو كانت نفلاً ينبغي أن يلزمه قضاؤه وإن أكملها؛ لوجوب الاستئناف عليه، بحر، وأقره في النهر والمقدسي.
(
قوله: وإن كثر شكه) بأن عرض له مرتين في عمره على ما عليه أكثرهم، أو في صلاته على ما اختاره فخر الإسلام. وفي المجتبى: وقيل: مرتين في سنة، ولعله على قول السرخسي، بحر ونهر.
(قوله: للحرج) أي في تكليفه بالعمل باليقين.
 (وله: وإلا) أي وإن لم يغلب على ظنه شيء، فلو شك أنها أولى الظهر أو ثانيته يجعلها الأولى ثم يقعد لاحتمال أنها الثانية ثم يصلي ركعة ثم يقعد لما قلنا، ثم يصلي ركعةً ويقعد لاحتمال أنها الرابعة، ثم يصلي أخرى ويقعد لما قلنا، فيأتي بأربع قعدات قعدتان مفروضتان وهما الثالثة والرابعة، وقعدتان واجبتان؛ ولو شك أنها الثانية أو الثالثة أتمها وقعد ثم صلى أخرى وقعد ثم الرابعة وقعد، وتمامه في البحر وسيذكر عن السراج أنه يسجد للسهو" (2/ 92)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

30/صفر1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے