021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جمعہ وعیدین کا خطبہ دینے کا طریقہ
81364سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

   جمعہ ا ورعیدین کا خطبہ دینے کا طریقےکی تفصیل بیان فرمادیں،مہربانی ہوگی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جمعہ کا خطبہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ  امام منبر یا کرسی  پر بیٹھے اور اس کے سامنے مؤذن جمعے کی اذانِ ثانی  کہے، جب اذان ہو جائے تو  امام نمازیوں کی طرف منہ کرکے منبر  پر کھڑا ہو اور خطبہ پڑھے،ایک خطبہ پڑھ کر ذراسی دیر (تقریباً تین مختصر آیات پڑھنے کی مقدار) بیٹھے، پھر  کھڑا ہوکر دوسرا خطبہ پڑھے، جب خطبہ ختم ہوجائے تو امام منبر سے اتر کر محراب کے سامنے (موجودہ حالات میں جہاں امام کا مصلی ہو، وہاں) آئے اور مؤذن تکبیر کہے، پھر سب کھڑے ہوکر امام کے ساتھ نماز پڑھیں،اگر منبر  یا کرسی یا کوئی بھی اونچی چیز موجود نہ ہو تو خطبہ سے پہلے اور  دو خطبوں کے درمیان امام زمین پر بھی بیٹھ  سکتا ہے۔

جمعہ کے لیے کوئی خاص خطبہ مقرر نہیں ہے، جمعے کے خطبہ میں مسنون  یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء، درود شریف اور قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ ہوں، اگر کسی کو خطبہ یاد نہ ہو تو دیکھ کر بھی پڑھ  سکتے ہیں، اور (موجودہ احوال میں گھروں وغیرہ پر جمعہ پڑھتے ہوئے) اگر کوئی دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو  پہلے خطبہ میں صرف سورہ فاتحہ اور دوسرے میں سورہ اخلاص یا سورہ عصر پڑھ لینے سے بھی جمعہ کا خطبہ ادا ہوجائے گا؛ کیوں کہ جمعے کے خطبے کا رکن ’’ذکر اللہ‘‘ اس میں پایا جاتاہے۔جمعہ کے خطبےمختصرکتابچوں میں چھپے ہوتے ہیں وہاں سے مل جائیں گے۔

اسی طرح عیدین کے لیے خطبےمخصوص نہیں ہیں، بلکہ تکبیر (اللہ تعالیٰ کی بڑائی)، حمد وثنا، درود شریف اور عیدین کی مناسبت سے احادیث واحکام پر مشتمل کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتاہے، عیدین کے خطبوں میں خصوصیت کے ساتھ تکبیر کی کثرت رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے، اس لیے سنت (مستحب) یہ ہے کہ پہلا خطبہ نو مسلسل تکبیر ات اور دوسرا خطبہ سات مرتبہ مسلسل تکبیر ات پڑھ کر شروع کیا جائے، اور دوسرے خطبے کے آخر میں منبر سے اترنے سے پہلے کچھ مرتبہ مسلسل تکبیر پڑھی جائے۔

عیدالفطر اور عید الاضحٰی کی مناسبت سے بطورِ نمونہ خطبے کتابچوں میں چھپے ہوتےہیں، جوحمدوثناءاور عیدین کے عمومی احکام  پرمشتمل ہوتے ہیں خطبے یاد نہ ہوں تو وہاں سے دیکھ کر پڑھے جاسکتے ہیں ۔

خطبۂ عیدین میں تکبیرات زیادہ سے زیادہ کہنا چاہیے،کھڑے ہوتے ہی پہلے نو دفعہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر خطبہ شروع کرنا چاہیے، اور دوسرے خطبہ کے شروع میں سات تکبیریں کہہ کر خطبہ شروع کرنا چاہیے، اور اس کا اختتام 14 تکبیروں سے کرنا چاہیے، اکثر لوگ اس سنت پر عمل نہیں کرتےہیں، اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے۔نیز اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ عید الفطر کے مقابلے میں عید الاضحیٰ میں تکبیرات زیادہ کہنا چاہیے۔

حوالہ جات
عن جابر بن سمرة قال کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب قائماً ثم یجلس ثم یقوم ویقرأ آیات ویذکر اللّٰہ عزوجل وکانت خطبة قصدا وصلاتہ قصدًا نسائی شریف جلد۱، ص۱۵۹، ابن ماجہ ص ۷۷، مکتبہ فیصل دیوبند۔ ترمذی شریف ج۱، ص۱۱۴، فیصل دیوبند
وفی مراسیل ابی داؤدعن الزھری:
 الحمد اللّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ نعوذ بہ من شرور انفسنا من یہد اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یظلل فلا ہادی لہ نشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشیرًا ونذیرًا بین یدی الساعة من یطع اللّٰہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما فقد غویٰ نسأل اللّٰہ ربنا ان یجعلنا ممن یطیعہ ویطیع رسولہ ویتبع رضوانہ ویجتنب سخطہ
 وفی البدائع:
  روی عن عثمان رضى الله تعالى عنه انہ لما استخلف خطب فی اول جمعة فلما قال الحمد اللّٰہ ارتج علیہ فقال انتم الی امام فعال احوج منکم الی امام قوال وان ابابکر و عمر کانا یعدان لہذا لمکان مقالا وستاتیکم الخطب من بعد واستغفر اللّٰہ لی ولکم ونزل وصلٰی بہم الجمعة کان ذٰلک بمحضر من المہاجرین الانصار وصلوا خلفہ وما انکروا علیہ صنیعہ مع انہم کانوا موصوفین بالامر بالمعروف والنہی عن المنکر فکان ہذا اجماعا من الصحابة بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۹، مکتبہ دارالفکر الطبعة الاولیٰ، کشاف ج۴، ص۵۳۵، مکتبہ منشورات البلاغة، الجامع لاحکام القرآن القرطبی ج۹، جز۱۸، ص۱۰۵، مکتبہ دارالفکر۔ 
’’قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: زَیِّنُوْا أَعْیَادَکُمْ بِالتَّکْبِیْر.‘‘ (المعجم الصغیر للطبراني:۵۹۹وإعلاء السنن :۸؍۹۶)
’’عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللّٰهِ يُكَبِّرُ فِي الْعِيدَيْنِ تِسْعًا تِسْعًا يَفْتَتِحُ بِالتَّكْبِيْرِ وَيَخْتِمُ بِهٖ. ‘‘(السنن الکبری للبيهقي:6215)
"عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ:’’ اَلسُّنَّةُ فِي التَّكْبِيْرِ يَوْمَ الْأَضْحىٰ وَالْفِطْرِ عَلى الْمِنْبَرِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ أَنْ يَّبْتَدِئَ الْإمَامُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ وَهُوَ قَائِمٌْ عَلَى الْمِنْبَرِ بِتِسْعِ تَكْبِيْرَاتٍ تَتْرىٰ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهَا بِكَلَامٍ ، ثُمَّ يَخْطُبُ ، ثُمَّ يَجْلِسُ جَلْسَةً ، ثُمَّ يَقُوْمُ فِي الْخُطْبَةِ الثَّانِيَةِ فَيَفْتَتِحُهَا بِسَبْعِ تَكْبِيْرَاتٍ تَتْرىٰ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهَا بِكَلَامٍ ، ثُمَّ يَخْطُبُ.‘‘
واضح رہے کہ یہ روایت مرسل ہے،اورعبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سے مروی ہے، جو ایک تابعی،محدث اور فقیہ ہیں، مدینہ منورہ کے فقہاءِ سبعہ میں سے ہیں،امام زہری اور حضرت عمر بن عبد العزیزکے استاذ ہیں،(تکملہ فتح الملھم:کتاب النذر،۱۲۹)اور مرسل روایت جب ثقہ راوی سے مروی ہو تو احناف کے نزدیک حجت ہے۔بالخصوص جب کہ راوی من السنۃ وغیرہ جیسے الفاظ سے نقل کرے۔
’’وإذا قيل عند التابعي يرفعه أوسائر الألفاظ المذكورة فمرفوع مرسل. ‘‘(تدریب الراوي للسیوطي:۱؍۱۹۲)
"قلت: وسائر الألفاظ المذکورة مثل قوله: من السنةکذا، وأمرنا بکذا، أو نهینا عن کذا، أو أمر فلان بکذا، ونحوہ، ویدخل فیه أیضاً مالایقال من قبل الرأي، لا مجال للاجتهاد فیه، فیحمل علی السماع، فإذا جاء عن الصحابي فهو في حکم المرفوع المتصل، وإذا جاء عن التابعي فمرفوع مرسل، أي مرفوع معنی ومرفوع لفظاً". (إعلاء السنن:۴؍۶) 
’’أَخْبَرَنَا الشَّافِعِيُّ قَالَ:أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ:حَدَّثَنِيْ إِسْمَاعِيْلُ بْنُ أُمَيَّةَ، أَنَّهٗ سَمِعَ أَنَّ التَّكْبِيْرَ فِي الْأُوْلٰى مِنَ الْخُطْبَتَيْنِ بِتِسْعٍ، وَفِي الْآخِرَةِ بِسَبْعٍ.‘‘ (معرفة السنن والآثار للبیهقي: 5؍88،والسنن للبیهقي:۶۲۱۶)
"وَیَبْدَأُ بِالتَّکْبِیْرَاتِ فِيْ خُطْبَةِ الْعِیْدَیْنِ وَیُسْتَحَبُّ أَن یَّسْتَفْتِحَ الأُوْلٰی بِتِسْعِِ تَکْبِیْرَاتٍ تَتریٰ وَالثَّانِیَةَ بِسَبْعٍٍ، قَالَ عَبْدُ اللهِ بنُ عُتْبَةَ بن مَسْعُوْدٍ: هُوَ مِن السُّنَّةِ، وَیُکَبِّرُ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ مِنَ الْمِنْبَرِ أَربَعَ عَشْرَةَ". (البحر الرائق : ۲؍۲۸۲والدرالمختار: ۲؍۱۲۰)
"وَیُکَبِّرُ فِيْ عِیْدِ الْأَضْحیٰ أَکْثَرَ مِمَّا فِيْ خُطْبَةِ الْفِطْرِ". (مراقي الفلاح:باب أحکام العیدین،۲۱۶)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

30/صفر1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے