021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سحری کے اوقات سے متعلق نقشہ جات میں اختلاف کا حکم
81943روزے کا بیانروزے کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا تعلق سوات سے ہے ، اور یہاں دو نقشے رائج ہیں  جن کے مطابق لوگ نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں۔ ایک نقشے کے مطابق مارچ کے 31 تاریخ کوانتہائے سحری کا وقت 4:34 ہے جبکہ دوسرے نقشے کے مطابق تقریبا 4:45 ہے۔ میں نے سحری کے عین اس وقت پانی پیا جب گھڑی میں 4:34 تھے جو پہلے والے نقشے کے مطابق انتہائے سحری کا وقت  تھا تو اب پوچھنا یہ ہے کہ جب ایک نقشے میں انتہائے سحری کا وقت 4:34 ہے اور کوئی شخص اس وقت پانی پیئے تو اس شخص کے روزے کا کیا حکم ہے حالانکہ دوسرے نقشے میں ابھی بھی 13 منٹ باقی ہیں ؟

نوٹ : ہمارے ہاں نمازوں کے اوقات کے لیے پہلے والا نقشہ یعنی جس میں 4:34 سحری کا ٹائم ہے وہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا

شریعت کے رو سے میرے روزے کا کیا حکم ہے کہ وہ درست ہو ایا نہیں ؟ جزاک اللہ ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اہل علم کے ہاں اختلاف ہے کہ آیا صبح صادق سورج کے 18 درجے زیر افق ہونے پر ہوتی ہے یا 15  درجے زیر افق ہونے پر؟ جمہور کے ہاں صبح صادق سورج کے 18 درجے زیر افق ہونے پر ہوتی ہے جبکہ فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ اور دار الافتاء جامعۃ الرشید کے تحقیق کے مطابق صبح صادق سورج کے 15 درجے زیر افق ہونے پر ہوتی ہے، اس وجہ سے پاکستان میں رائج نقشہ جات میں  ؐمختلف علاقوں اور مختلف اوقات میں دونوں اوقات میں فرق ہوتا ہے۔ دونوں اقوال چونکہ قوی دلائل اور مشاہدات پر مبنی ہیں، لہذا جس قول کے مطابق  بھی عمل کیا جائے چاہےوہ عمل  نمازہو یا  روزہ ،وہ درست  شمار ہوگا۔

تا ہم عبادات میں چونکہ احتیاط کا پہلو اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے اور روزے میں احتیاط یہی ہے کہ سحری جلد بند کی جائے جبکہ نماز میں احتیاط یہ ہے کہ وہ ذرا تاخیر سے پڑھی جائے تا کہ فجر کی نماز بلاشک وشبہ درست ہو جائے۔ اس لیے بہتر صورت یہی ہے کہ سحری سورج کے 18 درجے زیر افق ہونے پر بند کی جائے اور نماز سورج کے 15 درجے زیر افق ہونے پر پڑھی جائے ،تاکہ احتیاطی پہلو کی رعایت بھی ہو اور دونوں اقوال پر عمل بھی ہوجائے ،اس لیے ہمارے ہاں سے جو نقشہ جات جاری ہوتے ہیں ان میں ان دونوں باتوں کا خیال رکھاجاتا ہے ۔

 

جامعہ سے جاری شدہ نقشے اور اپنے طور پر حسابی عمل کرنے کے مطابق  31 مارچ 2023 کو انتہائے سحری کا وقت  18 درجے کے حساب سے 4بج کر34 منٹ  اور 15 درجے کے حساب سے 4 بج کر 48 منٹ ہے، صورت مسئولہ میں چونکہ 31 مارچ کو آپ نے 4:34 کو پانی پیا۔چونکہ ایک تو  یہ محض  چند سیکنڈ کا فرق ہے  اور دوسرا یہ کہ ایک قول انتہائے سحری کے بارے میں سورج کے 15 درجے زیر افق ہونے کا بھی ہےجو  4بج کر 48 منٹ کے مطابق بنتا ہے ،اس   لیے آپ کا روزہ درست ہے ۔البتہ عبادات میں احتیا ط کرنا بہتر ہے اس لیےآئندہ  وقت سے ایک دو منٹ پہلے ہی کھانا پینا بند کرلینا چاہیے ۔

حوالہ جات
حد ثنا بشر بن معاذ قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة قوله:"وكلوا واشرَبوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر ثم أتموا الصيام إلى الليل" فهما عَلَمان وحدَّان بَيِّنان فلا يمنعكم أذانُ مُؤذِّن مُراءٍ أو قليل العقل من سَحُوركم، فإنهم يؤذنون بهجيع من الليل طويل. وقد يُرى بياضٌ ما على السحر يقال له:" الصبح الكاذب" كانت تسميه العرب، فلا يمنعكم ذلك من سَحوركم، فإن الصبح لا خفاء به: طريقةٌ مُعترِضة في الأفق، وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الصبح، فإذا رأيتم ذلك فأمسكوا" (جامع البيان للطبري:3/ 510)
حدَّثنا مُسَدَد، حدَّثنا يحيى، عن التيميِّ (ح) وحدَّثنا أحمدُ بنُ يونسَ، حدَّثنا زُهير، حدَّثنا سليمانُ التيمي، عن أبي عثمانَ ،عن عبدِ الله بنِ مسعود، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: "لا يَمْنَعَن أحَدَكُم أذانُ بلالٍ من سَحورهِ، فإنه يُؤذِّنُ -أو قال: يُنادِي- لِيَرْجِعَ قائِمَكُم، وينتبِه نائمُكُم، وليس الفَجْرُ أن يقول هكذا" -قال مُسَدَّد: وجمع يحيى كَفَّهُ- "حتى يقول هكذا" ومدَّ يحيى بإصبعيه السَّبابَتْين. (سنن أبي داود:4/ 32)
قال :(وقت صلاة الفجر من حين يطلع الفجر المعترض في الأفق إلى طلوع الشمس) والفجر فجران كاذب تسميه العرب ذنب السرحان وهو البياض الذي يبدو في السماء طولا ويعقبه ظلام، والفجر الصادق وهو البياض المنتشر في الأفق، فبطلوع الفجر الكاذب لا يدخل وقت الصلاة ولا يحرم الأكل على الصائم ما لم يطلع الفجر الصادق لقوله صلى الله عليه وسلم :"لا يغرنكم الفجر المستطيل ولكن كلوا واشربوا حتى يطلع الفجر المستطير" يعني المنتشر في الأفق، وقال:الفجر هكذا ومد يده عرضا لا هكذا ومد يده طولا.(المبسوط، للسرخسي :1/ 141)
ونقل العلامة عبد الحليم اللكنوى رحمه الله تعالى في حاشيته على شرح الجغميني عن العلامة عبد العلى البرجندى رحمه الله تعالى في شرح قوله : ( إذا كان انحطاط الشمس ثمانية عشر جزءا) هذا هو المشهور ،ووقع في بعض كتب أبي ريحان أنه سبعة عشر جزء او قيل: إنه تسعة عشر جزء او هذا في ابتداء الصبح الكاذب ، وأما في ابتداء الصبح الصادق فقد قيل : ان انحطاط الشمس حينئذ خمسة عشر جزءا .(شرح چغمینی، ص: 175)

    رفیع اللہ    

دار الافتاءجامعۃ الرشید کراچی

8جمادی الاولی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رفیع اللہ غزنوی بن عبدالبصیر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے