03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکل جاؤ،میں تمہیں فارغ کرتا ہوں،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں سےطلاق کاحکم
82067طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میری بیوی سے لڑائی ہوئی ہے، اس نے مجھے گالی دی، میں نے اس کوطلاق کی نیت سے  بولا:"میرے گھر سے نکل جاؤ،میں تمہیں فارغ کرتاہوں" پھر اس نے مجھے کفریہ کلمات کہنے شروع کئے، تو کنجر ہے،سکھ ہے اوربھی گالیاں دیں پھر اس پر میں نے اسے پہلے والے واقعہ کےتقریباً دومنٹ بعد کہا کہ:"میں تمہیں طلاق دیتاہوں"اس کےتقریباً دو دن بعدمجھے ایک بندے نے فون کیا اورکہا کہ تم نے تین طلاقیں دیدیں؟ تو میں نے اس کو بولا:"دیدیں "اس پر پھر اس نے میرے والدین کو گالیاں دیں،برا بھلاکہا، ڈاڑھی کو نازیباالفاظ کہتی رہی،یہ باتیں10بندوں نے سنی ہیں، واٹس اپ پربھی ہیں،ابھی بتائیں میرے لیےکیاحکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکل جاؤ عربی لفظ"اخرجی"کے معنی میں ہے اورجب شوہرنے اسے ایک طلاق کی نیت سے بولاہے تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی، اس کے بعددوسرے لفظ"میں تمہیں فارغ کرتاہوں"بھی چونکہ کنائی لفظ ہے اورکنائی کنائی کو لاحق نہیں ہوتی ہے، لہذا اس سے کوئی طلاق نہیں ہوئی، اس کے دومنٹ کے بعدجب شوہرنے کہاکہ"میں تمہیں طلاق دیتاہوں"تودوسری بائن طلاق واقع ہوگئی اس لیے کہ یہ لفظ ہے توطلاقِ صریح کا لفظ ہے جس سے رجعی واقع ہوتی ہے مگرچونکہ پہلی طلاق بائن ہے جس کی وجہ سے یہ بھی بائن ہوکر اس کےساتھ  لاحق ہوگئی ،کیونکہ اصلا ً یہ صریح ہے اورصریح بائن کو لاحق ہوتی ہے،لہذایہ پہلے کے ساتھ لاحق ہوگئی اورمجموعی طورپر دو بائن ہوگئیں ، اس کےبعد جب دودن گزرنےپر شوہر سے پوچھاگیا کہ کیا تم نے تین طلاق دیدیں ؟ تو اس کے جواب میں جب شوہرنے کہاکہ"دیدیں"تو اس سے اس کی مراد مذکورہ الفاظ میں سے ہرایک سے ایک طلاق  دینا تھی جیسےکہ اس نے فون پر اس کی وضاحت کی جبکہ شرعاً دوسرے لفظ "میں تمہیں فارغ کرتاہوں"سے شرعاًبائن بائن کو لاحق نہ ہونے کی وجہ سے  واقع نہیں ہوئی مگروہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس کو واقع سمجھتارہاتھا اوراس بنیاد پر تین دینے کی خبردے رہاتھا تو مخبرعنہ دو طلاقیں ہیں ،نہ کہ تین طلاق اورجب مخبرعنہ موجودہےتواس میں انشاء کااحتمال ختم ہوگیا اوراس کوخبربناناممکن ہوا، لہذا دو طلاقیں واقع ہوئیں،جھوٹی خبرجس میں فقہاء کرام نے طلاق کے وقوع کا قول کیاہے اس میں مخبرعنہ موجود نہیں ہوتا اورلفظ انشاء طلاق کااحتمال ہوتاہے اس لیے اسے انشاءِ طلاق پر محمول کرکے وقوعِ طلاق کا حکم لگایاجاتاہے جبکہ یہاں مخبرعنہ موجود ہے اوراسی کی خبرزوج دے رہاہے، تاہم اپنی لاعلمی کی وجہ سے وہ اس کو تین سمجھ رہاہےجبکہ واقع میں وہ دو ہیں،لہذا تیسری طلاق نہیں ہوئی ،اگربیوی سن کرشوہرکی بلاحلف تصدیق کرتی ہو اچھی بات ہے،ورنہ شوہر سےقسم لی جائے گی،اورپھر چونکہ طلاق دو ہیں تو باہمی رضامندی سے نئے مہرکے ساتھ میاں دوبارہ نیا نکاح کرسکتے ہیں ۔

حوالہ جات

وفی ’’البحر الرائق‘‘:(۳؍۳۰۳)

ان من الکنایات ثلاثۃ عشر لا یعتبر فیھا دلالۃ الحال ولا تقع الا بالنیۃ اخرجی اذھبی لا نکاح لی علیک وفی کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ:

ما یصلح ردا منھا اخرجی وحکم ھذا القسم ان الطلاق لا یقع الا بالنیۃ (۳؍۳۴۲)

اللباب في شرح الكتاب - (ج 1 / ص 269)

والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 308)

(لا) يلحق البائن (البائن) (قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح،

وفی فتاوی دارالعلوم کراتشی:

آپ پرایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی  اوراوراس کے بعد جتنی مرتبہ آپ کے شوہرنے   یہ الفاظ" آپ مجھ سے فارغ ہو " کہے ہیں ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاق بائن کے ساتھ دوسری بائن ملحق نہیں ہوتی۔(کذا فی تبویب دارالعلوم کراچی 1594/53)

درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 371)

إذا أبانها، ثم قال في العدة أنت طالق ثلاثا تقع الثلاث؛ لأن الحرمة الغليظة إذا ثبتت بمجرد النية بلا ذكر الثلاث لعدم ثبوتها في المحل فلأن تثبت إذا صرح بالثلاث أولى ويدل عليه أيضا أن الصريح يلحق البائن؛ لأن قوله أنت طالق ثلاثا صريح بلا ريب

وفی الھندیة ( ١ / ٣٧٧):

"الطَّلَاقُ الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الطَّلَاقَ الصَّرِيحَ بِأَنْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ وَقَعَتْ طَلْقَةٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ تَقَعُ أُخْرَى، وَيَلْحَقُ الْبَائِنُ أَيْضًا بِأَنْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ أَوْ خَالَعَهَا عَلَى مَالٍ، ثُمَّ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ وَقَعَتْ عِنْدَنَا، وَالطَّلَاقُ الْبَائِنُ يَلْحَقُ الطَّلَاقَ الصَّرِيحَ بِأَنْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ ثُمَّ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ تَقَعُ طَلْقَةٌ أُخْرَى، وَلَايَلْحَقُ الْبَائِنُ الْبَائِنَ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاءجامعۃالرشید

22/05/1445

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب