82102 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
(1)۔۔۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بچوں سے نوازا ہے جن کی میں اپنی حیثیت کے مطابق پرورش کر رہا ہوں۔ میرا اپنا ذاتی اسکول ہے، میں اپنے بچوں کو اسی میں بھیجتا ہوں۔ میرے والد صاحب میری اہلیہ اور والدہ کو اپنے ساتھ ملا کر مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول میں داخل کراؤ۔ اللہ تعالیٰ میرے والد محترم اور بچوں کو زندگی عطا فرمائے، مجھے ان کی محبت پر بالکل شک نہیں، لیکن میں یہ پسند نہیں کرتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق ہی بچوں کی پرورش کرنی چاہیے۔ اگر کل کو خدا نخواستہ میرے والد صاحب کو کچھ ہوگیا اور میں اپنے بچوں کو وہ معیار نہ دے سکا تو کیا میری عزت ان کے دل میں کم نہ ہوگی؟ اس وقت میں ذہنی اذیت کا شکار ہوں، اہلیہ سے بھی اس بات پر ناراضی ہوئی ہے، میں اپنے بچوں کو دین دار، جبکہ والد صاحب اور گھر کے دیگر افراد ان کو دنیا دار بنانا چاہتے ہیں، میری سوچ اور ان کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا والد صاحب کی اس بات کو نہ ماننا ان کی نافرمانی میں شامل ہے؟ اور اس کی وجہ سے میں گناہ گار ہوں گا؟
(2)۔۔۔ ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، مگر میں اب بہت مشکل کا شکار ہو چکا ہوں، اگر میں اپنا گھر الگ کروں تو نافرمانی میں تو نہیں آئے گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کا اپنے بچوں کو اپنے اسکول میں پڑھانا اور والدین کی خواہش کے مطابق دوسرے اسکول میں داخل نہ کرانا ان کی نافرمانی نہیں ہے، اس کی وجہ سے آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔ البتہ والدین اور اہلیہ کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیں، بلکہ نرمی اور حکمت و مصلحت سے ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہیں۔
(2)۔۔۔ اگر والدین ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور آپ کو اس میں شرعی یا ذاتی حوالے سے کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں تو ان کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے، اس میں ان کی خدمت کرنے اور دعائیں لینے کا موقع زیادہ ملتا ہے۔ لیکن اگر شرعی خرابیوں کا سامنا ہو یا ذاتی اور انتظامی حوالے سے ناقابلِ تحمل مشقت پیش آتی ہو تو علیحدہ رہائش اختیار کرنا والدین کی نافرمانی کے زمرے میں نہیں آئے گا، بشرطیکہ اس کے بعد ان کی خدمت، خبر گیری، حسنِ سلوک، صلہ رحمی اور نرمی و محبت سے پیش آنے میں کوئی کمی نہ ہو۔
حوالہ جات
القرآن الکریم، سورة الإسراء:
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (24) } .
المبسوط للسرخسي (5/ 383):
ثم الغلام إذا بلغ رشيدا فله أن ينفرد بالسكنى وليس للأب أن يضمه إلى نفسه، إلا أن يكون مفسدا مخوفا عليه، فحينئذ له أن يضمه إلى نفسه اعتبارا لنفسه بماله، فإنه بعد ما بلغ رشيدا لا يبقى للأب يد في ماله، فكذلك في نفسه، وإذا بلغ مبذرا كان للأب ولاية حفظ ماله، فكذلك له أن يضمه إلى نفسه إما لدفع الفتنة أو لدفع العار عن نفسه، فإنه يعير بفساد ولده.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
26/جمادی الاولیٰ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |