021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدہ، بیوہ، بیٹی اور بیٹوں میں میراث کی تقسیم
82135میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب محمد اکرم کا انتقال ہوا ہے، ہماری سگی والدہ رسولہ بی بی والد سے پہلے انتقال کر گئی  تھی، جبکہ ہماری سوتیلی والدہ شازیہ پروین زندہ ہے، ان کی کوئی اولاد نہیں اور دوسری شادی کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے والد صاحب کے والد اور دادا کا انتقال ان کی زندگی میں ہوگیا تھا، جبکہ والدہ یعنی ہماری دادی زندہ ہے۔ ان کے علاوہ ورثا میں ہم دو بیٹے (محمد اکرام، محمد مزمل) اور  ایک بیٹی (عائشہ) ہیں۔ ہمارے والد صاحب نے تین مکانات اور ایک کار چھوڑی ہے جن کی مالیت دوکروڑچھہتر لاکھ(27600000) روپے ہیں۔ اس کی تقسیم کیسے ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والد صاحب مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں ان تین مکانات اور کار سمیت جو منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ،نقد رقم، سونا چاندی، مالِ تجارت غرض ہر طرح کا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے یا اگر مرحوم کا کسی شخص یا ادارے کے ذمے  کوئی قرض واجب ہو، وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سےسب سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین كےمتوسط اخراجات اداكئے جائیں،اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردئیے ہوں تو اس صورت میں یہ اخراجات ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر دیکھیں اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض واجب الادا ہو تو اس کو ادا کریں ، اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور بیوی نے اپنی دلی خوشی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو وہ بھی قرض میں شامل ہے، جو اس کو دینا ضروری ہے۔اس کے بعد دیکھیں اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال میں سے ایک تہائی (3/1)مال کی حد تک اس پر عمل کریں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کے کُل ایک سو بیس (120) حصے کر کے بیوہ کو پندرہ (15) حصےاور سوال میں مذکورہ رقم کے اعتبار سے چونتیس لاکھ پچاس  ہزار روپے(3450000)، والدہ (آپ کی دادی) کو بیس (20) حصےیعنی چھیالیس لاکھ روپے(4600000)، بیٹی کو سترہ (17) حصےیعنی انتالیس لاکھ دس ہزار روپے(3910000) اور دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو چونتیس، چونتیس (34، 34) حصےیعنی ہر بیٹے کو اٹھہتر لاکھ بیس ہزارروپے(7820000) دیدیں۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:  
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ…… وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ} [النساء: 11]
{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن} [النساء: 12]
السراجی فی المیراث(5):
  قال علماؤنا - رحمهم الله تعالی- : تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: الأول يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر، ثم تقضی دیونه  من جمیع ما بقی من ماله،  ثم تنفذ وصایاه
من ثلث ما بقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة وإجماع الأمة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      28/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے