82170 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
آج سے 5 سال 6 ماہ پہلے میرا نکاح میرے خالہ کے بیٹے سے ہوا تھا، رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ نکاح کے ایک سال بعد اس نے مجھے میسج پر طلاق دی۔ اس نے دو بار "طلاق"، "طلاق" لکھا اور تیسری دفعہ "Tallo" مطلب "نکلو" لکھ کر بھیجا۔ وہ کہہ رہا ہے میں نے مذاق کیا تھا، لیکن اگر اس کو پتا نہ ہوتا کہ مذاق میں طلاق ہوجاتی ہے تو وہ تین بار بولتا۔ میری فیملی نے فتویٰ لیا ہے جس کے مطابق ایک طلاق ہوگئی ہے اور اگر لڑکا لڑکی چاہیں تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی، میری فیملی بھی نہیں چاہتی، لیکن وہ مجھے طلاق پیپر نہیں دے رہا، اس کی فیملی مجھے بد نام کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے میرا نکاح ختم ہوگیا ہے؟
تنقیح: سائلہ کے رشتہ دار محمد نبیل نے فون پر سائلہ کی طرف سے بتایا کہ نکاح کے بعد اور طلاق سے پہلے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی، میسج پر ہمارا جھگڑا ہوا جس میں اس نے طلاق کے مذکورہ الفاظ لکھ کر بھیجے۔ میں نے کہا طلاق ہوگئی تو اس نے مجھے گالی بکی اور کہا کہ تو نے مجھے چھوڑنا ہے تو ٹھیک ہے، تجھے آزاد کرتا ہوں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نکاح کے بعد اگر شوہر ہمبستری سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ طلاق طلاقِ بائن ہوتی ہے، اگرچہ صریح الفاظ سے ہو، جس سے نکاح ختم ہوجاتا ہے اور شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہوتا۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اس میسج کے بعد آپ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی اور آپ دونوں کا نکاح ختم ہوگیا تھا۔ اب اگر آپ اس لڑکے سے دوبارہ نکاح کرنے پر راضی نہیں تو آپ کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے گھر والے آپ کی اجازت سے دوسری مناسب جگہ جہاں چاہیں آپ کا نکاح کرا سکتے ہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار (3/ 286):
( وإن فرق ) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره ( بانت بالأولى ) لا إلى عدة ( و ) لذا ( لم تقع الثانية ) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل.
رد المحتار (3/ 286):
قوله ( ولذا ) أي لكونها بانت لا إلى عدة ح. قوله ( لم تقع الثانية ) المراد بها ما بعد الأولى فيشمل الثالثة. قوله ( بخلاف الموطوءة ) أي ولو حكما كالمختلى بها، فإنها كالموطوءة في لزوم العدة، وكذا في وقوع طلاق بائن آخر في عدتها، وقيل: لا يقع، والصواب الأول، كما مر في باب المهر نظما، وأوضحناه هناك.
تبيين الحقائق (6/ 218):
ثم الكتاب على ثلاث مراتب:
مستبين مرسوم، وهو أن يكون معنونا أي مصدرا بالعنوان، وهو أن يكتب في صدره "من فلان إلى فلان" على ما جرت به العادة في تسيير الكتاب، فيكون هذا كالنطق، فلزم حجة. ومستبين غير مرسوم، كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم، فإن هذا يكون لغوا؛ لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق، فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه، كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه؛ لأن الكتابة قد تكون للتجربة وقد تكون للتحقيق، وبهذه الأشياء تتعين الجهة، وقيل: الإملاء من غير إشهاد لا يكون حجة، والأول أظهر. وغير مستبين، كالكتابة على الهواء أو الماء، وهو بمنزلة كلام غير مسموع، ولا يثبت به شيء من الأحكام وإن نوى.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
28/جمادی الاولیٰ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |