021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کا والدہ کی رقم خود خرچ کرنا اور والدہ کے انتقال کے بعد ان پر خرچ کرنے کا دعویٰ کرنا
82171دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میرے دو بیٹوں محمد اشرف اور محمد اطہر نے میرا گھر چونسٹھ لاکھ میں بیچا، اس میں سے سات لاکھ ڈیوز وغیرہ میں لگ گئے۔ بقیہ ستاون لاکھ اس طرح تقسیم کیے گئے کہ دس لاکھ میرے حصے میں آئے، دس لاکھ میری اہلیہ کے حصے میں اور نو، نو لاکھ میرے چار بیٹوں میں سے ہر ایک کے حصے میں آئے۔ میری اہلیہ کا حصہ بڑے بیٹے محمد اشرف نے اپنے پاس رکھ لیا۔ پھر اس نے اور میرے چھوٹے بیٹے محمد اطہر نے اپنے لیے مشترکہ گھر بنا رہے تھے تو بڑے بیٹے محمد اشرف نے میری اہلیہ کے پیسوں میں سے تین لاکھ روپے اس میں لگادئیے، جبکہ ساڑھے چھ لاکھ کی تیسر ٹاؤن میں فائلیں لیں اور پچاس ہزار روپے میری اہلیہ کو دئیے۔ اسی طرح میری اہلیہ نے اپنے سونے کے دو کانٹے (کانوں میں پہنے جانے والے) محمد اشرف کے پاس رکھوائے تھے اور کسی قسم کی کوئی وصیت نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے بیٹے محمد اشرف سے اپنی اہلیہ کے ساڑھے نو لاکھ روپے اور یہ سونے کے کانٹے لینے کا حق رکھتا ہوں یا نہیں؟ تاکہ اس سے لے کر شریعت کے مطابق اپنے بچوں میں تقسیم کروں اور اہلیہ کی روح کے سکون کا باعث بنوں۔ وہ تین لاکھ روپے کا اقرار کر رہا ہے، بلکہ ان میں سے ایک لاکھ روپے واپس کردئیے ہیں، لیکن باقی ساڑھے چھ لاکھ کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ وہ میں نے والدہ کے علاج پر خرچ کیے ہیں، حالانکہ میری اہلیہ کا مستقل کوئی علاج نہیں ہوا۔  اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو محمد اشرف کے لیے والدہ کی اجازت کے بغیر ان کے پیسے اس طرح استعمال کرنا جائز نہیں تھا، اب اس پر لازم ہے کہ والدہ کی پوری رقم اور سونے کے کانٹے جلداز جلد واپس کردے، جب وہ یہ چیزیں واپس کردے تو پھر آپ پر لازم ہوگا کہ اس میں محمد اشرف سمیت تمام ورثا کو ان کے شرعی حصے پورے پورے دیدیں۔

 اگر محمد اشرف ساڑھے چھ لاکھ روپے والدہ کے علاج پر خرچ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر دو گواہ پیش کرنا لازم ہوگا، اگر وہ دو گواہ پیش کردے تو اس کی بات مانی جائے گی، لیکن اگر وہ گواہ پیش نہ کر سکے تو پھر آپ اس بات پر قسم اٹھائیں گے کہ ہمارے علم کے مطابق اس نے یہ رقم اپنی والدہ کے علاج پر خرچ نہیں کیے، اگر آپ ایسا قسم اٹھالیں گے تو اس پر یہ رقم واپس کرنا لازم ہوگا۔

حوالہ جات
المجلة مع شرحها للعلامة الأتاسي (1/20):
 المادة 5: الأصل بقاء ما كان على ما كان.
الشرح: یعني أن الذي ثبت علی حال في الزمان الماضي ثبوتا أو نفیا، یبقی علی حاله و لایتغیر ما لم یوجد دلیل یغیره. وهذا هو الاستصحاب، مأخوذ من الاستصحاب اللغوي، وهو الملازمة وعدم المفارقة.
المجلة مع شرحها للعلامة الأتاسي (1/218):
 المادة 77: البينة لاثبات خلاف الظاهر، واليمين لإبقاء الأصل.
الشرح: وذلك لأن من یکذبه الظاهر أشد احتیاجا لتقویة کلامه ممن یصدقها لظاهر، والبینات لکونها من کلام غیر الخصمین أقوی حجة من الیمین لکونها من کلام الخصم، أعني المدعی علیه، فجعلت للمدعین، والیمین حجة من یتمسك ببقاء الأصل والظاهر علی حاله، فجعلت للمدعی علیه؛ لأن ظاهر الحال یشهد له.
بدائع الصنائع (7/ 164):
 ولو أقر الغاصب بما يدعي المغصوب منه وادعى الرد عليه لا يصدق إلا ببينة؛ لأن الإقرار بالغصب إقرار بوجود سبب وجود الضمان منه، فهو بقوله "رددت عليك" يدعي انفساخ السبب، فلا يصدق من غير بينة.
المجلة مع شرحها للعلامة الأتاسي (5/505):
المادة 1774: الأمين يصدق بيمينه في براءة ذمته، كما إذا ادعى المودع الوديعة، وقال الوديع: أنا رددتها إليك فالقول له مع اليمين، ولكن إذا أراد أن يقيم البينة؛ ليخلص من اليمين، فتسمع بينته.
الشرح: الأمین أي کل من کان المال في یده أمانة(یصدق بیمینه لا في براءة ذمته) إذا لم یکذبه الظاهر، وإلا فلا بد من البینة. کالوکیل والوصي والمتولي والمضارب والشریك والمستعیر والملتقط والمرتهن في الزائد عن مقدار الدین والأجیر الخاص في ما تحت یده. والحاصل أن کل من کانت یده ید أمانة ولیس المال مضمونًا علیه، حکمهم کالمودع، یبرأ بما یبرأ به المودع ویضمن بما یضمن به………..  الحاصل کما في الأنقرویة: أن المقبوض في ید الوکیل بجهة التوکیل بالبیع والشراء وقبض الدین والعین وقضاء الدین، أمانة بمنزلة الودیعة، فیقبل قوله في ما یدعیه بیمینه إلا الوکیل بقبض الدین إذا ادعی بعد موت المؤکل أن کان قبضه في حیاته ودفعه إلیه، فإنه لایقبل إلا ببینة؛ لأنه حکی أمرا لایملك استئنافه، و في ما إذا  ادعی بعد موت الموکل أنه اشتری لنفسه وکان الثمن منقودا، وفي ما إذا قال بعد عزله: بعته أمس وکذبه الموکل وفي ما إذا قال بعد موت الموکل: بعته من فلان بألف درهم وقبضتها وهلکت وکذبته الورثة في البیع؛ فإنه لایصدق إذا کان المبیع قائما، بخلاف ما إذا کان المبیع مستهلکا اه، من الفن الثاني من الأشباه.
والفرق بین ما إذا کان المبیع قائما و ما إذا کان هالکا، ما في هامش الأنقرویة أنه إذا کان هالکا فحاصل اختلافهما في الحال في الضمان علی الوکیل في زوال المبیع عن ملك الموکل وبقائه علی ملکه؛ لأنه بالهلاك زال ملکه باتفاقهما، وإنما اختلافهما في إیجاب الضمان علی الوکیل للموکل بقوله للوکیل بعت وسلمت بعد ما عزلتك عن الوکالة، فقد صرت ضامنا، وقد أنکر الوکیل ذلك، والضمان کان منتفیا عن الوکیل في الأصل، فهو ینفي الضمان بتمسکه بما هو الثابت في الأصل، فیجعل القول قوله حتی یثبت غیره. فأما إذا کان المبیع قائما فالملك فیه باق، وحاصل اختلافهما إنما وقع في زواله عن ملك الموکل أوبقائه علی ملکه، فالوکیل یدعي زواله عن ملکه، فکان الموکل في ما یدعي متمسکا بما هو الأصل، فیکون القول قوله، کما في الذخیرة.
بدائع الصنائع (5/ 279):
من حلف على غير فعله يحلف على العلم لأنه لا علم له بما ليس بفعله ومن حلف على فعل نفسه يحلف على البتات.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      28/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے