021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ولادت کے ساتھ معلق طلاق مغلظ سے بچنے کی تدبیر
82254طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

ایک شخص نے اپنی حاملہ بیوی سے کہا  کہ جس وقت تیری اولاد پیدا ہو اس وقت تجھے تین طلاقِ ۔ مفتیان کرام اس معلق طلاق مغلظہ سے بچنے کی کیا صورت یا تدبیر ہو سکتی ہے ؟ بینوا توجروا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں طلاق ثلاثہ  سے بچنے کی تدبیریہ ہے کہ  وضع حمل سے پہلےمنجز(بغیر کسی شرط کے)طلاق  دی جائے جس کی عدت کا اختتام ولادت ہی پر ہوگا ،لہذا طلاق معلق واقع نہیں ہوگی،جس کی چند وجوہ ہیں:

۱۔ اول اس لیے کہ معلق طلاق کے وقوع کے لیے نکاح یا زمانہ عدت ہونا شرط ہے اورحاملہ کی عدت طلاق وضع حمل ہےاورتعلیق بھی وضع حمل کے ساتھ ہوئی ہےاورتعلیق میں اصولیین کے ضابطے کے تحت شرط کا تکلم بھی (تقدیرا)مؤخر ہوتا ہےتو گویا یہاں تکلم طلاق وضع حمل کے بعد ہوا ہے اور اس وقت تو عورت محل طلاق نہیں ہوگی،لہذامعلق طلاق واقع نہیں ہوگی۔

۲۔ثانیاوضع حمل کاشرعی وفقہی مفہوم وسیع ہےجس میں مکمل خروج ولد(حقیقۃ)اورخروج اکثر(حکماواحتیاطا)ودونوں شامل ہیں۔(شامیہ)جبکہ عرف میں وضع حمل کا اطلاق بچہ جننے کا عمل مکمل وپورا ہونے پر ہوتا ہے،چونکہ یمین کےحکم میں ہونے کی وجہ سے تعلیق کامداربھی عرف پرہے،لہذا وضع حمل سے پہلےمنجزطلاق  دینے سے شرعی مفہوم کےمطابق اکثر ولدکےخروج سے عدت  مکمل ہوجائےگی اوراس کے بعد عرفی مفہوم کے مطابق کل ولدکےخروج سے شرط تعلیق کا تحقق ہوگا،جس سےشرط کا تحقق عدت طلاق کے بعد پایا جائے گا جو موجب طلاق نہیں،لہذا طلاق معلق واقع نہیں ہوگی۔

مذکورہ تفصیل جزاء یعنی وقع طلاق کو شرط یعنی ولادت سے زمانامؤخر مان لینے پرمبنی تھی،اگربالفرض شرط وجزاء کے زمانہ کو ایک مان کر یہ فرض کیا جائے کہ اس مسئلہ میں وقع طلاق کازمانہ اور انقضاء عدت کا زمانہ  ایک ہے توبھی بطور استیناس بعض فقہی جزئیات سےمعلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع نہ ہونی چاہئے، جیسےسلام وجواب کا زمانہ اگرایک ہوتو جواب معتبر نہیں ہوتا اوراسی طرح ایجاب وقبول کا زمانہ اگر ایک ہوتوبیع منعقدنہیں ہوتی۔

حوالہ جات
رد المحتار - (ج 18 / ص 215):
ويرد على التعريفين ما في التتارخانية : لو خرجا معا صح البيع ، لكن في القهستاني : لو كانا معا لم ينعقد كما قالوا في السلام ،
 ( قوله : ويرد على التعريفين ) أي تعريفي الإيجاب والقبول حيث قيد الإيجاب بكونه أولا والقبول بكونه ثانيا ط .
( قوله : لكن في القهستاني إلخ ) ومثله في التجنيس لصاحب الهداية .
( قوله : كما قالوا في السلام ) أي لو رد على المسلم مع السلام فلا بد من الإعادة .

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷جمادی الثانی۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے