82434 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
ایک ویب سائٹ ہے جس پر کام کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں وہ کچھ یوں ہےکہ اس پر بہت سی نوکریاں آتی ہیں اُن میں کرنا یہ ہوتا ہے کی کسی بھی نوکری(job (کو کھولا جاتا ہے وہاں ایک لنک دیا گیا ہوتا ہے جس کو کھولنےسے ایک ویب سائٹ کھل جاتی ہے وہ ویب سائٹ مختلف مصنوعات products) )کے متعلق ہوتی ہیں ،پیسے لےکر ان کی ویب سائٹ کھولنی ہوتی ہے اور تسلی کے طور پر ان کو ثبوت دینا ہوتا ہے کہ میں نے آپ کی ویب سائٹ وزٹ کر لی ہےاور اس میں موجوداشتہار کو بھی کھول لیا ہے اور وہ اس کےعوض ہمیں پیسے دیتے ہیں ۔ جتنے لوگ ان کی ویب سائٹ کھولتےہیں تو گوگل ان کواس کے مطابق پیسے دیتا ہے اور وہ ہمیں ہمارے پیسے دیتےہیں ۔
یاد رہے وہ ویب سائٹ کچھ بھی غیر شرعی چیزیں فروخت نہیں کر رہے ہوتے، وہ ان کی کاروبار کی ویب سائٹ ہوتی ہے ، ان کوصرف ہماری وجہ سے ٹریفک مل رہا ہوتاہے تو کیا ایسا کاروبار کرنا اور اس سے کمائی حآصل کرنا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مصنوعی طور پر کسی چیز کو مشہور کرنا یا اسے اچھا باور کرانا،اسی طرح مصنوعی طور پر کسی ویب سائٹ کی ٹریفک کو بڑھانا غرر پر مبنی ہے اوریہ طریقہ لوگوں کی دھوکہ دہی کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ،نیز اس میں چونکہ گوگل یا کسی بھی تشہیر کرنے والےادارے(advertising company)سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور منفعت غیر مقصود ہ پر اجارہ ہوتا ہےاس لیے اس طرح کا کوئی بھی فعل جائز نہیں اور ان کے عو ض لی جانی والی رقم بھی حرام ہے۔لہذا کسی ایسی ویب سائٹ پر کام کرنا اور اس سے کمائی حاصل کرنا جائز نہیں ۔
حوالہ جات
وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ، وَابْنُ حُجْرٍ جَمِيعًا، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ . قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ « أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟ قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ، يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ؟" مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي "(صحيح مسلم:1/ 69)
(و) كره (النجش) بفتحتين ويسكن: أن يزيد ولا يريد الشراء أو يمدحه بما ليس فيه ليروجه ويجري في النكاح وغيره ).رد المحتار ط الحلبي:5/ 101)
) هي) لغة: اسم للأجرة ،وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال: أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له ؛لأنها منفعة غير مقصودة من العين .بزازية .وسيجيء).رد المحتار ط الحلبي:6/ 4)
(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي) ولو أخذ بلا شرط يباح (و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه) ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان).رد المحتار ط الحلبي:6/ 55)
وَعَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَّا قَالَ: لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ(مشكاة المصابيح:1/ 17)
رفیع اللہ
دار الافتاءجامعۃ الرشید کراچی
17جمادی الاخری1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رفیع اللہ غزنوی بن عبدالبصیر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |