82483 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
کیا کمپنی کے لیے ایسی پالیسی بنانا جائز ہے کہ اگر ملازم مہینے میں تین دن تاخیر سے آئے تو ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹی جائے گی، جبکہ کمپنی نے اس طرح کا قانون بنایا ہولیکن ملازم نے باِدل نخواستہ نوکری ((JOBحاصل کرنے کے لیے اس طرح کے معاہدےپر دستخط بھی کرلیے ہوں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
فقہ حنفی کےراجح اور مفتی بہ قول کے مطابق کسی کوتاہی پر مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ۔کمپنی کی یہ پالیسی چونکہ اسی تعزیر با لمال پر مبنی ہے ،لہذا کمپنی کے لیے کوئی ایسی پالیسی کہ اگر ملازم مہینے میں تین دن تاخیر سے آئے تو ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹی جائے گی وضع کرنا جائز نہیں اگرچہ ملازم نے اس پر دستخط کرلیے ہوں ۔ملازمین کو پابند بنانے کے لیے دیگر جائز ممکنہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جوآپ کسی معتبر دار الافتاء میں تفصیلی سوال جمع کرکے معلوم کرسکتے ہیں ۔
حوالہ جات
وأفاد في البزازية :أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به -إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة ؛إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.وفي المجتبى: لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال. ( رد المحتار ط الحلبي:4/ 61)
ثُمَّ نُسِخَ ذَلِكَ فَرُدَّتِ الْأُمُورُ إِلَى أَنْ لَا يُعَاقَبَ أَحَدٌ بِانْتِهَاكِ حُرْمَةٍ لَمْ يَأْخُذْ فِيهَا مَالًا بِأَنْ يَغْرَمَ مَالًا ، وَوَجَبَتْ عَلَيْهِ الْعُقُوبَةُ الَّتِي أَوْجَبَ اللهُ عَلَى سَائِرِ الزُّنَاةِ.(شرح معاني الآثار:3/ 146)
والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق :5/ 44(
رفیع اللہ
دار الافتاءجامعۃ الرشید کراچی
17جمادی الاخری1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رفیع اللہ غزنوی بن عبدالبصیر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |