03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رحمان اللہ نام رکھنے کا حکم
82413جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

کیا رحمان اللہ نام رکھنا شرعا جائز ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

’’رحمان ‘‘اللہ تعالیٰ کے ان خاص صفاتی ناموں میں سے ہے، جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے اور   ’’عبد‘‘ کی اضافت کےبغیریہ نام رکھنا شرعاً درست نہیں ہے، بلکہ جب بھی یہ نام رکھا جائے، تو  ’’عبد‘‘ کی اضافت کے ساتھ یعنی ’’عبدالرحمٰن‘‘ نام رکھا جائے، لہذا ’’رحمان اللہ‘‘ نام رکھنا شرعاً درست نہیں ہے۔’’رحمان ‘‘اللہ تعالیٰ کے ان خاص صفاتی ناموں میں سے ہے، جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے اور   ’’عبد‘‘ کی اضافت کےبغیریہ نام رکھنا شرعاً درست نہیں ہے، بلکہ جب بھی یہ نام رکھا جائے، تو  ’’عبد‘‘ کی اضافت کے ساتھ یعنی ’’عبدالرحمٰن‘‘ نام رکھا جائے، لہذا ’’رحمان اللہ‘‘ نام رکھنا شرعاً درست نہیں ہے۔

حوالہ جات

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے، لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔

دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ ’’رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار ‘‘ قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبد الرحمن، عبدالسبحان، عبد الرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبد الرحمن کو رحمٰن، عبد الرزاق کو رزّاق، عبد الخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔(تفسیر معارف القرآن:132/4)

قال ابن منظور رحمه الله: قال الزجاج: الرحمن اسم من أسماء الله عز وجل، مذكور في الكتب الأول...ومعناه عند أهل اللغة: ذو الرحمة التي لا غاية بعدها في الرحمة؛ لأن فعلان بناء من أبنية المبالغة...قال الأزهري: ولا يجوز أن يقال ‌رحمن إلا لله عز وجل، وفعلان من أبنية ما يبالغ في وصفه، فالرحمن الذي وسعت رحمته كل شيء، فلا يجوز أن يقال ‌رحمن لغير الله... وقال الحسن: الرحمن اسم ممتنع لا يسمى غير الله به.(لسان العرب:12/ 231)

في الفتاوى الهندية:‌أحب ‌الأسماء ‌إلى ‌الله تعالى عبد الله وعبد الرحمن، لكن التسمية بغير هذه الأسماء في هذا الزمان أولى؛ لأن العوام يصغرون هذه الأسماء للنداء.  والتسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة؛ لأنه من الأسماء المشتركة، ويراد في حق العباد غير ما يراد في حق الله تعالى، كذا في السراجية. (الفتاوى الهندية:5/ 362)

عبدالہادی

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

25 جمادی الاخری 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالهادى بن فتح جان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب