82488 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
میرے دادا کا انتقال ہوگیاتو دادا کے ورثہ میں میرے والداور اس کی ایک سگی بہن اور ایک سوتیلی بہن تھی اور کوئی دوسرا سگا بھائی نہیں تھا ،نیز دادا کے انتقال کے وقت ان کے والدین اوربیوی حیات نہیں تھیں ۔میراث تقسیم کرنے سے پہلے میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا، والد کےورثہ میں صرف چھ بیٹے تھےکوئی بیٹی نہیں تھی، والدہ کا انتقال والد سے پہلے ہوا تھا، پھر والدکےایک بیٹےکا بھی انتقال ہوا، جو کہ شادی شدہ تھے،ا ن کے ورثہ میں صرف ایک بیوہ ہے اس کے علاوہ کوئی اولاد نہیں ہیں، دادا اور والد کے ترکہ کی مالیت تقریباً 30 لاکھ ہے، ہم 5 بھائیوں اور ایک بھابھی میں کیسے تقسیم ہوگی؟ میرے بھائی وراثت کو شرعی طور پر تقسیم نہیں کرنا چاہتےجب کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر حصہ دار کو اس کا حصہ ملے، میری رہنمائی فرمائیں کہ میں اس گناہ سے کیسے بچ سکتا ہوں؟ایسی صورتِ حال میں میرے لیے کتنا حصہ لینا جائز ہوگا؟ تاکہ آخرت بھی خراب نہ ہواور اپنا جائز حق بھی مجھے مل جائے ۔جزاکم اللہ خیرا ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تجہیز وتکفین کا خرچ ،قرض کی ادا ئیگی اورثلث مال سے وصیت کےنفاذ کے بعد کل ترکہ کے دو سوچالیس حصے بنائے جائیں گے،پھر ان میں آپ کے والد کی ہردو بہنوں(آپ کی دونو ں پھوپھیوں )کو ساٹھ ساٹھ حصے،نیز چونکہ آپ کا ایک بھائی وفات پاچکا ہے اس لیے آپ پانچ بھا ئیوں کو تئییس ،تئییس حصے،اور آپ کے بھائی کی بیوہ کو پانچ حصے دیے جائیں گے۔
کل ترکہ میں فیصد کے اعتبار سے آپ کی دونو ں پھوپیوں کو%25،%25 فیصد، آپ پانچ بھائیوں کو ٪9.5833فیصداور آپ کے بھائی کی بیوہ کو 2.08333%فیصد حصہ ملے گا۔
صورت مسئولہ میں اگر کل قابل تقسیم ترکہ تیس لاکھ تھا تو اس تقسیم کی رو سے آپ کی دونو ں پھوپھیوں کوساڑھے سات، ساڑھے سات لاکھ روپے،آپ پانچ بھائیوں میں سے ہر ایک کو دولاکھ ستاسی ہزارپانچ سو روپے اورآپ کے بھائی کی بیوہ کو باسٹھ ہزارپانچ سو روپے ملیں گے ۔ذیل میں نقشہ سے اس کی وضاحت کی جاتی ہے:
نمبر شمار |
ورثاء کی تفصیل |
عددی حصص |
فیصدی حصص |
فی کس رقم |
1 |
والد کی بہن (پھوپی،صغری ) |
60 |
25٪ |
-/750000 |
2 |
والد کی بہن (پھوپی،کبری) |
60 |
25٪ |
-/750000 |
آپ کا بھائی(الف) |
23 |
9.5833% |
-/287500 |
|
4 |
آپ کا بھائی (ب) |
23 |
9.5833% |
-/287500 |
5 |
آپ کا بھائی (ج) |
23 |
9.5833% |
-/287500 |
5 |
آپ کا بھائی (د) |
23 |
9.5833% |
-/287500 |
6 |
آپ کا بھائی (ھ) |
23 |
9.5833% |
-/287500 |
7 |
آپ کے فوت شدہ بھائی کی بیوہ |
5 |
2.08333% |
62500/- |
|
مجموعہ |
240 |
99.99983% |
3000000/- |
ملاحظہ:میراث کی جلد تقسیم شرعی حکم ہےخصوصاجب ورثہ اس کی تقسیم کا مطالبہ بھی کررہے ہوں ،اس کو بلا وجہ روکنا یا میراث کی تقسیم میں ٹال مٹول سے کام لینا جائز نہیں ،بلکہ شریعت حقوق العباد جلد ادا کرنے کا حکم دیتی ہے اس لیے اگر آپ میراث کی بروقت تقسیم چاہتے ہیں مگر دیگر ورثہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں تو اس کا گناہ آپ کو نہیں ہوگا ۔تاہم حکمت وبصیرت کے ساتھ اپنے حق کا مطالبہ کرتے رہنا اور دیگر بھائیوں کو اپنی شرعی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرنا آپ کا شرعی واخلاقی فریضہ ہے۔
حوالہ جات
ﵟيُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءٗ فَوۡقَ ٱثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖ وَإِن كَانَتۡ وَٰحِدَةٗ فَلَهَا ٱلنِّصۡفُۚ وَلِأَبَوَيۡهِ لِكُلِّ وَٰحِدٖ مِّنۡهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٞۚ فَإِن لَّمۡ يَكُن لَّهُۥ وَلَدٞ وَوَرِثَهُۥٓ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ ٱلثُّلُثُۚ فَإِن كَانَ لَهُۥٓ إِخۡوَةٞ فَلِأُمِّهِ ٱلسُّدُسُۚ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِي بِهَآ أَوۡ دَيۡنٍۗ ءَابَآؤُكُمۡ وَأَبۡنَآؤُكُمۡ لَا تَدۡرُونَ أَيُّهُمۡ أَقۡرَبُ لَكُمۡ نَفۡعٗاۚ فَرِيضَةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمٗا ١١ﵞ [النساء: 11]
يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته. (كنز الدقائق ،ص:696)
وهو أن يموت بعض الورثة قبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل، ولم تقسم تركته حتى مات بعض ورثته فالحال لا يخلو إما أن يكون ورثة الميت الثاني ورثة الميت الأول فقط أو يكون في ورثة الميت الثاني من لا يكون وارثا للميت الأول ثم لا يخلو إما أن تكون قسمة التركة الثانية وقسمة التركة الأولى سواء، أو تكون قسمة التركة الثانية بغير الوجه الذي قسمت التركة الأولى ثم لا يخلو إما أن تستقيم قسمة نصيب الميت الثاني من تركة الميت الأول بين ورثته من غير كسر أو ينكسر فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول، ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمةالخ.(الفتاوى الهندية:6/ 470)
رفیع اللہ
دار الافتاءجامعۃ الرشید کراچی
20جمادی الاخریٰ1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رفیع اللہ غزنوی بن عبدالبصیر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |