021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وکیل بالتصدق کا صدقہ کی رقم کو ذاتی استعمال میں لانا
82557جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

ایک بندے نے مجھے کچھ رقم دی صدقہ کی نیت سے کہ اس کو مدرسہ کے طالبِ علموں پر خرچ کردینا،لیکن مجھے بھی حد سے زیادہ ضرورت تھی اور میں خود بھی مدرسے کا طالب علم ہوں،چنانچہ میں نے ان پیسوں کو استعمال کرلیا،اب ان پیسوں کی واپسی کے بارے میں میرے لئے کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مذکورہ صورت میں اس شخص نے آپ کوعمومی اختیار نہیں دیا تھا،بلکہ اس رقم کو صرف مدرسہ کے طلبہ پر خرچ کرنے کا وکیل بنایا تھا،اس لئے آپ اسے اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتے تھے،لہذا آپ کے ذمے اس رقم کا ضمان لازم ہے،جو آپ رقم دینے والے شخص کو دیں گے،یا پھر اس کی دوبارہ اجازت سے مدرسے کے طلبہ پر خرچ کریں گے۔ (احسن الفتاوی:308/4)

تاہم اگر مؤکل آپ کے اطلاع دینے پر آپ سے ضمان نہ لینا چاہے تو آپ کے ذمے سے ضمان ساقط ہوجائے گا،البتہ صدقہ واجبہ ہونے کی صورت میں مؤکل کے ذمے اس کا اعادہ لازم ہوگا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (2/ 269):
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت، ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأإن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله ولو تصدق إلخ) أي الوكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

03/رجب1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے