021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حالتِ غصہ میں حواس کھوکر بیوی کو بغیر علم و ارادہ کےتین طلاق دینےکاحکم
82714طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

اگست 2023 کو، تقریباً 2 بجے، میری اور میری حاملہ بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا۔ میں نے غصے میں آکر اسے ڈانٹا، اور زور زور سے چلایا۔وہ رونے لگی اور کہنے لگی 'کیونکہ میرے والد اور بھائی یہاں نہیں ہیں اس لیے آپ میرے ساتھ ایسا کر رہے ہیں' ان الفاظ نے فوراً ہی مجھے خوف سے بھر دیا۔اپنی بیوی کو دیکھ کر، میری وجہ سے بہت رو رہی تھی۔ مجھے افسوس بھی ہوا کہ اسے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، کیونکہ میں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھنے کی کوشش کی۔

اس وقت میرے اندر تین چیزیں موجود تھیں: وہ غصہ جس کا میں نے پہلے ذکر کیا، خوف اور ندامت، جس نے مجھے رلا دیا۔اسی حالت میں میں واش روم جانے لگا۔ وہاں جاتے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو میں اسے حمل کے فوراً بعد طلاق دے دوں گا۔اس کے بعد میں واش روم چلا گیا...واش روم میں ملے جلے خیالات تھے، جیسے "یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیوں ہو رہا ہے؟" مجھے مبہم طور پر یاد ہے کہ میں نے ابھی اسے طلاق دینے کا سوچا تھا یا نہیں ۔ لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ میں نے اس کے بارے میں سوچا یا نہیں۔

واش روم سے واپسی پر میں  پھر اپنی بیوی پر اور زور زور سے چلایا۔مجھے پتا نہیں میں کیا چیخ رہا تھا۔ اس شور مچانے کے دوران میرے منہ سے طلاق کے الفاظ نکلے کہ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں۔ میں نے یہ الفاظ تین بار دہرائے۔

مجھے  اتنا پتا ہے کہ واش روم سے واپسی پرچلانے اور طلاق کے الفاظ نکالتے ہوئے مجھے کوئی ہوش نہیں تھا، لیکن ایک بار جب میں نے طلاق کے الفاظ کہہ دیےتو مجھے احساس ہوا کہ میں  یہ کہ چکاہوں۔ مجھے  نہیں پتا کہ میں یہ الفاظ کہنا چاہتا تھا یا نہیں لیکن  میں یہ الفاظ کہ چکاتھا۔ اور میں نے پھر اپنی بیوی پر چلا کر کہا کہ اسے میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔

میں دین کا طالب علم ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ لفظ طلاق تین بار کہنے سے تین مرتبہ طلاق شمار ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت جب یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے مجھے کوئی ہوش نہیں تھا، لیکن ایک بار جب میں نے طلاق کے الفاظ کہہ دیےتو مجھے احساس ہوا کہ میں  یہ کہ چکاہوں۔ مجھے  نہیں پتا کہ میں یہ الفاظ کہنا چاہتا تھا یا نہیں لیکن  میں یہ الفاظ کہ چکاتھا۔اسی بیوی نے 2016 میں مجھ سے خلع  لیا تھا۔ میرے استاد مفتی صاحب نے کہا کہ خلع کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ جب اس نے خلع کی ڈگری حاصل کی تو میں نے اسےایک  طلاق دے دی اور پھر میں نے جامعہ اشرفیہ میں فتویٰ طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔ پھر ہم نے جون/جولائی 2022 میں دوبارہ شادی کر لی، اور یہ واقعہ اگست 2023 میں پیش آیا۔

          7 اگست 2023 سے، ہم الگ ہو چکے ہیں۔ میں نے طلاق کا کوئی کاغذ نہیں لکھا۔ کوئی مجھ سے میری بیوی کے بارے میں پوچھے تو میں کہتا ہوں کہ میرے منہ سے الفاظ نکلے۔ طلاق ہو گئی ہے۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کیسے ہوا، لیکن یہ ہوا ہے۔براہ مہربانی، مشورہ دیں.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ نارمل غصہ میں طلاق ہوجاتی ہےاور غیر معمولی غصہ میں طلاق کا یہ حکم ہے کہ اگر شوہر بوقت طلاق  اس طرح مغلوب الحواس  ہونے کامدعی ہوکہ اسکی زبان سے اس کےعلم وا رادہ کےبغیر طلاق کےالفاظ نکل گئے ہیں اور حالت غصہ میں اس کی یہ حالت ہوجانا لوگوں میں معروف   ہو اور شوہر بوقت طلاق جنونی کیفیت میں مبتلا ہونےکے دعوی پر قسم اٹھالیں یااگر حالت غصہ میں  اس کی جنونی کیفیت والی حالت لوگوں میں معروف نہ ہولیکن کم    از کم دو ثقہ آدمی بوقت طلاق اس کےدیگر افعال واقدامات کودیکھتے ہوئےاس کے مغلوب الحواس ہونے کی گواہی دیں تو قضاءوہ بیوی اس کے لیےحلال ہے،بصورت دیگر قضا ء طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

لہذا صورت مسوؤلہ میں اگر آپ کا   حالت غصہ میں جنونی کیفیت میں مبتلا ہونا  پہلےسےمعروف  ہو  اور بوقت طلاق ہوش و حواس کےمعطل ہونے پر آپ قسم اٹھا لیں یا اگر حالت غصہ میں جنونی کیفیت میں مبتلا ہونا  پہلےسےمعروف نہ ہو،لیکن دو ثقہ آدمی بوقت طلاق آپ کے دیگر افعال واقدامات کو دیکھتے ہوئے مغلوب الحواس ہونے کی گواہی دے دیں تو بیوی آپ کے لیےحلا ل ہے،بصور ت دیگر قضا ء تین طلاقیں واقع ہوگئیں 

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 242):
لا يقع طلاق المولى على امرأة عبده...(والمغمى عليه) هو لغة المغشي (والمدهش) ...(قوله وفي القاموس دهش) أي بالكسر كفرح. ثم إن اقتصاره على ذكر التحير غير صحيح، فإنه في القاموس قال بعده أو: ذهب عقله حياء أو خوفا اهـ وهذا هو المراد هنا، ولذا جعله في البحر داخلا في المجنون.
مطلب في طلاق المدهوش وقال في الخيرية: غلط من فسره هنا بالتحير، إذ لا يلزم من التحير وهو التردد في الأمر ذهاب العقل. وسئل نظما فيمن طلق زوجته ثلاثا في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظما أيضا بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرة يصدق بلا برهان. اهـ. قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اهـ. ملخصا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع الطلاق من غضب خلافا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش، لكن يرد عليه أنا لم نعتبر أقوال المعتوه مع أنه لا يلزم فيه أن يصل إلى حالة لا يعلم فيها ما يقول ولا يريده وقد يجاب بأن المعتوه لما كان مستمرا على حالة واحدة يمكن ضبطها اعتبرت فيه واكتفي فيه بمجرد نقص العقل، بخلاف الغضب فإنه عارض في بعض الأحوال، لكن يرد عليه الدهش فإنه كذلك. والذي يظهر لي أن كلا من المدهوش والغضبان لا يلزم فيه أن يكون بحيث لا يعلم ما يقول بل يكتفى فيه بغلبة الهذيان واختلاط الجد بالهزل كما هو المفتى به في السكران على ما مر، ولا ينافيه تعريف الدهش بذهاب العقل فإن الجنون فنون، ولذا فسره في البحر باختلال العقل وأدخل فيه العته والبرسام والإغماء والدهش. ويؤيده ما قلنا قول بعضهم: العاقل من يستقيم كلامه وأفعاله إلا نادرا، والمجنون ضده. وأيضا فإن بعض المجانين يعرف ما يقول ويريده ويذكر ما يشهد الجاهل به بأنه عاقل ثم يظهر منه في مجلسه ما ينافيه، فإذا كان المجنون حقيقة قد يعرف ما يقول ويقصده فغيره بالأولى، فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل، نعم يشكل عليه ما سيأتي في التعليق عن البحر. وصرح به في الفتح والخانية وغيرهما، وهو: لو طلق فشهد عنده اثنان أنك استثنيت وهو غير ذاكر، وإن كان بحيث إذا غضب لا يدري ما يقول وسعه الأخذ بشهادتهما وإلا لا اهـ مقتضاه أنه إذا كان لا يدري ما يقول يقع طلاقه وإلا فلا حاجة إلى الأخذ بقولهما إنك استثنيت، وهذا مشكل جدا، وإلا أن يجاب بأن المراد بكونه لا يدري ما يقول أنه لقوة غضبه قد ينسى ما يقول ولا يتذكره بعد، وليس المراد أنه صار يجري على لسانه ما لا يفهمه أو لا يقصده إذ لا شك أنه حينئذ يكون في أعلى مراتب الجنون، ويؤيده هذا الحمل أنه في هذا الفرع عالم بأنه طلق وهو قاصد له، لكنه لم يتذكر الاستثناء لشدة غضبه، هذا ما ظهر لي في تحرير هذا المقام، والله أعلم بحقيقة المرام ثم رأيت ما يؤيد ذلك الجواب، وهو أنه قال في الولوالجية: إن كان بحال لو غضب يجري على لسانه ما لا يحفظه بعده جاز له الاعتماد على قول الشاهدين، فقوله لا يحفظه بعده صريح فيما قلنا والله أعلم۔

نعمت اللہ

دارالافتاءجامعہ الرشید،کراچی

10/رجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے