03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گناہ کی وجہ سے قطع تعلقی کرنے کا حکم
82568علم کا بیانعلم اور علماء کی تعظیم کا بیان

سوال

مفتی صاحب! ہم چند دوست ہیں جن میں سے ایک دوست علماء کرام کو فحش اور نازیبا گالیاں دیتا ہے اور ان پر طنز اور مزاق کیا کرتا ہے بطورخاص افغانستان کےان علماء کرام کو جو حال ہی میں اقتدارمیں آئے  ہیں۔ ان کے ساتھ ذاتی دشمنی نہ ہونےکے باوجود انہیں فحش گالیاں دیتا ہے اوروہاں کے اسلامی نظام کو برا بھلا کہتا ہے۔ دوستوں میں سے ایک دوست نے اسی  وجہ سے اس شخص سے تعلق ختم کردیا ہے،جبکہ دیگر دوست کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے تعلق ختم نہیں کرنا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ معاشرتی تعلق ختم کرنا اور اس کی مجالس میں جانا بند کردینا شرعا جائزہے ؟ اور ایسے شخص کا شرعا حکم کیا ہے جو علماء حق اور اسلامی نظام کو اعلانیہ گالیاں دیتا ہو اور برا بھلا کہتا ہوں ؟ برائےکرم مدلل جواب دیجیئےگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

علماء کی جماعت میں بھی کمزوریاں ہو سکتی ہیں ،اور بعض عالم کہلانے والے غلط کار بھی ہو سکتے ہیں،لیکن بے دھڑک تمام علماء کو برا بھلاکہنا انتہائی نا مناسب اور غلط ہے،اور اس سے ایمان ضائع ہونے ہو جانے کا اندیشہ ہے،اس سے توبہ کرنی چاہیے۔آپ دوستوں کو چاہیے کہ اسے  حکمت، بصیرت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھائیں کہ اس طرز عمل پر اسے دنیا وآخرت کی بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا ،اور اس کی اصلاح کے لیے مختلف طریقوں سے کوشش کرتے رہیں ۔ اور اگر یہ امید ہو کہ  اس سے بات چیت بند کرنے سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تو  قطع تعلقی بھی کی جا سکتی ہے۔ ایسے شخص کی ان مجالس سے لاتعلقی ضروری ہے جن میں گناہ کا امکان ہو، اور جہاں گناہ کا امکان نہ ہو وہاں اصلاح کی نیت سے تعلق رکھ کر کوشش بھی جاری رکھی جائے ۔دین اور اصلاح کی خاطر قطع تعلقی  کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، اور رسول اللہ ﷺ  نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قطع تعلقی کا جو حکم دیا تھا اس کی بہت سی حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک وجہ اصلاح اور ان کی توبہ کی تکمیل بھی ہے۔

حوالہ جات

قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعالى: فلو بطريق الحقارة كفر؛ لأن إهانة أهل العلم كفر على المختار.(رد المحتار     (4/ 72:

قال العلامۃ داماد آفندي رحمه الله تعالى : وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلا على خيار عباده؛ ليدلوا خلقه على شريعته نيابة عن رسله ،فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء: بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله. والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم عويلم أو لعلوي عليوي قاصدا به الاستخفاف كفر .

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:1/ 695)

قال جمع من العلماء رحمه الله تعالى:في النصاب من أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، إذا قال لرجل مصلح: ديدا روى نزد من جنان است كه ديدار خوك يخاف عليه الكفر كذا في الخلاصة.ويخاف عليه الكفر إذا شتم عالما، أو فقيها من غير سبب، ويكفر بقوله لعالم ذكر الحمار في است علمك يريد علم الدين ،كذا في البحر الرائق. (الفتاوى الهندية:2/ 270)

قال العلامة ملا علي القاري رحمه الله تعالى: قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب ‌على ‌أخيه ‌ثلاث ‌ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ:قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ.

 وأجمع ‌العلماء ‌على ‌أن ‌من ‌خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده.... ...... فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق.(مرقاة المفاتيح :8/ 3147)

  ہارون عبداللہ

  دارالافتاء،جامعۃ الرشید،کراچی

   یکم رجب1445 ھ   

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب