82716 | نماز کا بیان | تراویح کابیان |
سوال
تراویح کے امام کو کس بنیاد پر امامت پر مقرر کرسکتے ہیں؟ آج کل ہمارے یہاں ہر ایک حافظ چاہتا ہے مجھے محلہ کی مسجد میں تراویح کا موقع ملے تو کن کن شرائط کی وجہ سے حافظ کو تراویح کی امامت پر مقرر کریں؟ کچھ حافظ چار رکعت کے طالب ہوتے ہیں ، کچھ آٹھ کے طالب ہوتےہیں اور کچھ پوری بیس رکعت کے طالب ہوتے ہیں۔ تو کس کس کو تراویح پڑھانے کا موقع دے سکتے ہیں ؟شرعی احکام سے مفصل رہنمائی فرماکر مشکور و ممنون فرمائیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تراویح میں ایک قرآنِ مجید ختم کرنا سنت ہے ۔امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل بالغ ہو ،صحیح العقیدہ ہو ،قرآن شریف صحیح پڑھتا ہو ،نماز کے ضروری احکام سے واقف ہو ۔لہذا جو حافظ ان شرائط پر جس قدر زیادہ پورا اترے، اسی کو تراویح کی امامت کے لیے مقدم کرنا چاہیے۔ اگر متعدد حفاظ پڑھانا چاہیں تو ان میں رکعات کی تعداد کی تقسیم ایسے کی جائے کہ تراویح میں ایک مرتبہ قرآن مکمل ہو جائے ۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدين رحمه الله تعالى:(والختم) مرة سنة،ومرتین فضیلة،وثلاثا أفضل.قولہ :(والختم مرة سنة) أی قرائة الختم فی صلاة التراویح سنة، وصححہ فی الخانیة وغیرها، وعزاہ فی الهدایة إلی أکثر المشایخ. وفی الکافی إلی الجمهور، وفی البرهان: وهو المروی عن أبی حنیفة والمنقول فی الآثار. (رد المحتار: 2 / 46 )
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى :الأولى بالإمامة أعلمهم بأحكام الصلاة. هكذا في المضمرات وهو الظاهر. هكذا في البحر الرائق، هذا إذا علم من القراءة قدر ما تقوم به سنة القراءة، هكذا في التبيين، ولم يطعن في دينه. كذا في الكفاية، وهكذا في النهاية.ويجتنب الفواحش الظاهرة.(الفتاوى الهندية : 83/1 )
قال العلامۃ ابن عابدين رحمه الله تعالى:(والأحق بالإمامة)...(الأعلم بأحكام الصلاة) فقط، صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، .....(ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات .(الدر المختارمع رد المحتار:1/ 557)
ہارون عبداللہ
دارالافتاء،جامعۃالرشید،كراچی
09رجب 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |