83095 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
میرے شوہر شادی کے ایک مہینہ بعد سعودی عرب چلے گئے، ایک دن اچانک کسی بات پر لڑائی کے دوران ان کا میسج آیا کہ تیرا میرا کوئی تعلق نہیں ، اس کے بعد ایک ہفتے تک ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا ،ایک ہفتہ بعد ان کی کال آئی اور ہم پہلے کی طرح بات کرنے لگے ، اس کے بعد وہ پاکستان واپس آگئے اور حق زوجیت ادا کرنے لگے اور اس دوران بچوں کی پیدائش بھی ہوئی، اسی طرح سات سال گزر گئے اور ایک دن اچانک فیس بُک پر طلاق کے بارے میں کوئی بیان سنا تو مجھے پریشانی کے عالم میں کہنے لگے کہ میں نے تمہیں سعود یہ میں طلاق دے دی تھی۔ پھر ا یک مفتی صاحب سے تین طلاق کا مسئلہ بھی پوچھ بیٹھے، لیکن اس کے بعد وہ بہت بری طرح کے وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ میں نے تمہیں طلاق دے دی تھی یا نہیں؟اگردی تھی توکتنی دی تھی؟ یا میں نے صرف ایسے کہا تھا کہ میں پاکستان ہوتا تو تمہیں طلاق دے دیتا یا منہ سے خود سے باتیں کرتے ہوئے کچھ الفاظ ادا ہوئے جو مجھے یاد نہیں ،پھر ہم نے پچھلے سال رمضان المبارک کے آخری ایام میں ایک مفتی صاحب کی رائے کے مطابق تجدید نکاح کر لیا، اب کیا ہمارا ساتھ رہنا درست ہے؟
تنقیح:شوہرنے بتایاہے کہ تیرامیراکوئی تعلق نہیں،اس جملہ کے بولتے وقت طلاق کی نیت نہیں تھی،دوسری بات انہوں نےیہ بتائی ہے کہ میں وہم کامریض ہوں،اس کی باقاعدہ دوائی استعمال کرتاہوں،اس کے باوجودمجھے وہم بہت ہوتاہے،جب میں سعودیہ میں تھا میں سوچ رہاتھاکہ میرے آس پاس رشتہ دارموجود ہیں اورمیری اہلیہ بھی موجود ہیں،پھرکسی بات پرمجھے غصہ آیااورمیں نے طلاق دیدی،جبکہ حقیقت میں وہاں کوئی موجود ہی نہیں تھا،اب مجھے یاد نہیں ہے کہ زبان سے الفاظ اداہوئے یانہیں؟کیونکہ میں جب وہم میں ہوتاہوں توبسااوقات زبان سے بھی کچھ نہ کچھ بولتارہتاہوں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں مذکورہ تناظرمیں حکم یہ ہے کہ اگرآپ کے شوہرکو یقین کے ساتھ یاد ہے کہ اس نے طلاق کے الفاظ استعمال کیے ہیں یاکنایہ والے الفاظ طلاق کی نیت سے اداکیے ہیں تومذکورہ صورت میں طلاق ہوگی،ورنہ نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 9 / ص 367):
لم يبق بيني وبينك عمل لم تطلق إلا أن ينوي به النكاح وينوي به إيقاع الطلاق فحينئذ ۔
فی رد المحتار (ج 4 / ص 409):
قوله: (وموسوس) بالكسر ولا يقال بالفتح، ولكن موسوس له أو إليه: أي تلقى إليه الوسوسة.
وقال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل موسوس لانه يحدث بما في ضميره، وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس، قال: يعني المغلوب في عقله، وعن الحاكم: هو المصاب في عقله إذا تكلم يتكلم بغير نظام، كذا في المغرب.
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۳۰/رجب ۱۴۴۵ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |