83281 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جانوروں کے مسائل |
سوال
مفتی صاحب مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھے ایک بلی کا بچہ ملا تھا، میں نے اسے پالنا شروع کیا۔ لیکن میں نے کئی دفعہ اُس پر جان بوجھ کر ظلم کیا، اور اُسے بہت تکلیف اور اذیت دی،۔حالانکہ میں عاقل اور بالغ ہوں،میری عمر 23 سال ہے۔ اِس دفعہ تو اتنا شدید ظلم کیا کہ بلی کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی، بالکل ایسا لگتا تھا کہ جیسے وُہ ابھی مر جائے گی لیکن وُہ زندہ ہے۔ پتہ نہیں میں کتنا وحشی بن گیا تھا۔ اب بہت ہی شرمسار اور نادم ہوں۔ بہت ڈر بھی لگ رہا ہے کہ کہیں خدا نخواستہ اللہ تعالٰی مجھ پر عذاب نہ مسلط کر دیں یا کوئی نعمت مجھ سے نہ چھین لیں۔ اور ایسا بھی سنا ہے کہ بے زبان کی بددعا لگتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے ؟ اب میں کیا کروں ؟ اِس غلطی کو ٹھیک کیسے کروں کہ اللہ تعالی مجھ پر کوئی عذاب نہ لائے یا کوئی نعمت مجھ سے چھین نہ لے؟ بلی اب بھی میرے پاس ہی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی بھی جانور کو تکلیف دینا یا اس پر ظلم کرنا سخت ترین گناہ ہے ۔شریعت میں جانوروں کو بلاوجہ تکلیف دینے والے یا ان پر ظلم کرنے والے کے متعلق بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہما کی ایک روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلی کو پکڑ رکھا تھا اور اس کو کھانے پینے کو کچھ نہ دیا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ۔اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے سبب اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچ رہی تھی ۔
اگر آپ نے بلی پر ظلم کیا ہے تو آپ شرعا گناہ گار ہیں لہذا آپ اللہ تعالی ٰ سے صدق دل سے معافی مانگیں اور کچھ صدقہ بھی کر یں ۔آئندہ اس طرح کی حرکت سے باز رہیں اور اس بلی کا خوب خیال رکھیں یا اس کو آزاد چھوڑ دیں۔
حوالہ جات
روى الإمام البخاري رحمه الله تعالى عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما:أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الكسوف، فقال: "دنت مني النار، حتى قلت: أي رب وأنا معهم، فإذا امرأة - حسبت أنه قال - تخدشها هرة، قال: ما شأن هذه؟ قالوا: حبستها حتى ماتت جوعا". (صحيح البخاري:2/ 833)
روى اّلإمام البخاري رحمه الله تعالى عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت، فدخلت فيها النار، لا هي أطعمتها ولا سقتها إذ حبستها، ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض".(صحيح البخاري:3/ 1284)
قال العلامة الهرري رحمه الله تعالى: وسبب تعذيب (هذه) المرأة؟ (قالوا) لي سبب تعذيبها أنها (حبستها) وربطتها بحبل (حتى ماتت) تلك الهرة (جوعا) أي: لأجل جوع وعطش؛ (لا هي) أي: لا تلك المرأة (أطعمتها) أي: أطعمت تلك الهرة في مربطها، (ولا هي أرسلتها) وأطلقتها من رباطها فـ (تأكل من خشاش الأرض)أي: من هوامها وحشراتها، قال النووي: وربطها معصية صغيرة، وإنما كانت كبيرة بإصرارها، فاستحقت التعذيب. (شرح سنن ابن ماجه للهرري :8/ 39)
قال العلامة حمزة قاسم رحمه الله تعالى:يقول ابن عمر رضي الله عنهما: " لعن النبي صلى الله عليه وسلم من مثل بالحيوان " أي قطع أجزاء جسمه وهو حي، لما في ذلك من تعذيب الحيوان، الذي أوجب الشارع الرحمة والرفق به، والعطف والشفقة عليه، حتى في حال ذبحه، حيث قال صلى الله عليه وسلم: " إذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة، وليحد أحدكم شفرته وليرح ذبيحته ".فقه الحديث: دل هذا الحديث على تحريم تعذيب الحيوان بالتمثيل به وهو حى، أو محاولة الانتصار عليه بخداعه وطعنه بالخناجر والسهام في ظهره استعراضا لبطولة زائفة في مصارعة كاذبة، كما في مصارعة الثيران التي نرى فيها دعاة الرفق بالحيوان كيف يعذبون الحيوان المسكين، ويتخذون من تعذيبه ملهاة يتسلى بها الجماهير، فإن الإسلام وهو دين الرحمة قد حرم ذلك أشد التحريم، لما فيه من قسوة ووحشية. (منار القاري:5/ 171)
قال العلامة الطبراني رحمه الله تعالى:في الحديث دليل لتحريم قتل الهرة، وتحريم حبسها بغير طعام أو شراب، وأمَّا دخولها النار بسببها: فظاهر الحديث أنَّها كانت مسلمةٌ، وإنِّما دخلت النار بسبب الهرة، وذكر القاضي: أنَّه يجوز أنها كافرة عُذِّبت بكفرها، وزيد في عذابها بسبب الهرة، واستحقت ذلك لكونها ليست مؤمنة تُغفر صغائرها باجتناب الكبائر، قال الإمام النووي: والصواب أنها كانت مسلمة، وأنَّها دخلت النَّار بسببها كما هو ظاهر الحديث، وهذه المعصية ليست صغيرة، بل صارت بإصرارها كبيرة، وليس في الحديث أنها تُخَلَّد في النَّار.وفي هذا الحديث: الحث على الإحسان إلى الحيوان المحترم، وهو ما لا يُؤمر بقتله، فأمَّا المأمور بقتله فيمتثل أمر الشرع في قتله، وأمَّا المحترم فيحصل الثواب بسقيه والإحسان إليه أيضًا بإطعامه وغيره، سواء كان مملوكًا أو مباحًا، وسواء كان مملوكًا له أو لغيره، والله أعلم. ( المعجم الأوسط للطبراني:2/ 842)
ہارون عبداللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
07 شعبان1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |