021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوۃ کی رقم سے مقروض داماد کے قرضوں کی ادائیگی کا حکم
83347زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

میرے داماد نے کچھ رقم بینک سے قرض کی صورت میں لی تھی، جو ابھی پوری ادا نہیں ہوسکتی اور اس کی نوکری بھی ختم ہوگئ ہے ۔  داماد کے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، مالی پریشانی لاحق ہے ، اس لئے میری رہنمائی فرمائے کہ کیا  میں ان کا قرضہ اپنی زکوۃ میں سے ادا کردوں ؟

نوٹ: سائل سے زبانی بات کرکے معلوم ہوا کہ وہ  بینک جاکر از خود یہ رقم ادا کرانا چاہتا ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اپنے مستحقِ زکوۃ  داماد زکوۃ دینا بھی شرعا جائز ہے ، لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کا داماد واقعتا زکوۃ کا مستحق ہے یعنی اس کی ملکیت  میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد رقم  یا زائد از ضرورت سامان   موجود نہیں ہے،   تو اسے زکوۃ دینا  جائز ہے بشرطیکہ زکوۃ کی رقم  اس  کی ملکیت اور قبضہ  میں دیا جائے اور اسے اس رقم میں مکمل طور پر مالکانہ تصرف کا اختیار دے دیا جائے ۔

 لہذا آپ جو رقم زکوۃ کے طورپر اس کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے دینا چاہتے ہیں ، اس میں یہ ضروری ہے کہ وہ ساری رقم داماد ہی کے ہاتھ دی جائے اور اس کو اس کا مالک بنادیا جائے ۔ تو اس عمل سےآپ کی زکوۃ ادا ہوجائے گی  ، پھر اس رقم کو چاہے وہ اپنےواجب الاداء  قرضوں کی ادا ئیگی میں صرف کرے یا اپنی دیگر ضروریات میں خرچ کرے، اس میں   آپ کو کسی قسم کے تصرف کا اختیار نہیں ۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 189)
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 131):
(قوله ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان) سواء كان النصاب ناميا أو غير نام حتى لو كان له بيت لا يسكنه يساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه.... قال في المرغيناني :إذا كان له خمس من الإبل قيمتها أقل من مائتي درهم يحل له الزكاة وتجب عليه ولهذا يظهر أن المعتبر نصاب النقد من أي مال كان بلغ نصابا من جنسه أو لم يبلغ وقوله إلى من يملك نصابا بشرط أن يكون النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية.
الفتاوى الهندية (1/ 187):
(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير.

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

16/ شعبان المعظم /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے