021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ری سیلنگ کی اجرت لینے کا حکم
83006/63خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال زید کپڑے کا تاجر ہے۔ اس نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہے جس میں بہت سے ری سیلرز کو ایڈ کیا ہے۔ زید  ہر نئے آنے والے آرٹیکل کی تصاویر گروپ میں بھیجتا ہے اور ساتھ ہول سیل ریٹ اور ڈاک خرچ بھی بتا دیتا ہے۔ ہر ری سیلر اس ہول سیل قیمت میں اپنا منافع شامل کر کے وہی تصاویر نئی قیمت سمیت سوشل میڈیا پر شئیر  کر دیتا ہے۔ جب گاہک کوئی چیز پسند کر کے ری سیلر کو آرڈر کرتا ہے تو ری سیلر گاہک کا ایڈریس اور قیمت فروخت  زید کو بتا دیتا ہے۔ زید مطلوبہ آرٹیکل پیک کر کے ڈاک کے ذریعے گاہک کو روانہ کر دیتا ہے اور گاہک موقع پر رقم دے کر پارسل وصول کر لیتا ہے اور وہ رقم ایک ہفتے کے وقفے سے زید تک پہنچ جاتی ہے۔ زید اس رقم میں شامل اضافی رقم ری سیلر کو ادا کر دیتا ہے ۔ایسی صورت حال میں ری سیلنگ کے شرعی احکام کیا ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ری سیلر عام طور پر  کمیشن ایجنٹ ہوتا ہے اور تاجر اور گاہک کے درمیان واسطہ بنتا ہے  اورعا م طور پر ادارے کے اشتہار ہی آگے چلاتا ہے۔ اس کا تاجر کو سامان فروخت کرنے میں مدد فراہم کرنا بھی جائز ہے اور اس پر متعین  اجرت لینا بھی جائز ہے۔البتہ اگر یہ اپنے اشتہار بنا کر اپنی طرف نسبت کر کے مال بیچے گا یہ درست نہیں ہو گا  ،کیونکہ وہ مال کا مالک نہیں۔لہذا اسے چاہیے کہ اپنی طرف نسبت نہ کرے۔

حوالہ جات
وأما ‌الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.(الدر المختار مع حاشية رد المحتار:٤/٥٦٠)
قال في التتارخانية: ‌وفي ‌الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.(رد المحتار:٦/٦٣)
إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ،ثم باع صاحب المال ماله ينظر، فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة ‌الدلال جميعها من البائع أخذت منه أو من المشتري أخذت منه أو من الاثنين أخذت منهما.(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:١/٢٧٢)
وقال ابن عباس رضي الله عنه  : لا بأس أن يقول: بع هذا الثوب، فما زاد على كذا وكذا فهو لك . وقال ابن سيرين رحمه الله تعالى : إذا قال: بعه بكذا وكذا، فما كان من ربح فهو لك، أو بيني وبينك، فلا بأس به.(صحيح البخاري:٤/٧٥٣)

احسن ظفر قریشی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

22 رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے