83475 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
میرا ایک جاننے والا پراپرٹی ڈیلر ہے ۔اس نے مجھے ایک ہاوسنگ سوسائٹی سے 5 مرلے کے40 پلاٹ دو لاکھ فی پلاٹ کے حساب سے خرید کر دیے ۔اوپن مارکیٹ میں ایک پلاٹ کی قیمت تین لاکھ تھی ،لیکن ڈیلرز کو یہ پلاٹ سستے ملتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ پلاٹ خریدتے ہیں اور سوسائٹی میں پیسے انویسٹ کرتے ہیں۔ اس نے مجھے کہا کہ یہ پلاٹ اوپن مارکیٹ میں چار سے پانچ مہینوں میں تین لاکھ فی پلاٹ بک جائیں گے اور مجھ سے 50 ہزار فی پلاٹ ایڈوانس بطور مزدوری لیے اور اوپن مارکیٹ میں 17پلاٹ تین لاکھ فی پلاٹ کے حساب سے بیچ دیے اور باقی پلاٹ سوسائٹی مالکان نے سات مہینے بعد اس سےخود تین لاکھ فی پلاٹ کے حساب سے خرید لیے کیونکہ شاید پلاٹ کی قیمت بہتر ہو رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹھیک ہے؟جواب سے مطلع فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوسائٹیوں میں پلاٹوں کی خرید و فروخت کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں اور ہر صورت کا حکم الگ ہے۔
1۔اگر پلاٹ کی اس حد تک تعیین ہو گئی ہو کہ خریدار نقشے کی مدد سے اپنے پلاٹ کا محل وقوع جان سکتا ہے اور اس کا سائز،سیکٹر، محل وقوع متعین ہو تو اس پلاٹ کی فائل کو خریدنا بھی جائز ہے اور نفع پر بیچنا بھی جائز ہے ۔
2۔اگر پلاٹ کا محل وقوع متعین نہ ہوا ہو بلکہ صرف اتنا معلوم ہو کہ مجموعی رقبے میں اس سائز کا پلاٹ ہے اور آگے بیچنے کی اجازت بھی ہو اور پلاٹ متعین ہونے پر کسی جھگڑے کا خطرہ بھی نہ ہو تو صاحبین کے مذہب کے مطابق اس پلاٹ کی فائل کو آگے بیچنا تو جائز ہے ،مگر چونکہ اس طرز عمل سے قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھائی جاتی ہیں لہذا سدا للذریعہ اس پر نفع لینا منع ہے ، صرف قیمت خرید پر بیچ سکتا ہے ۔
3۔اگر محض اندازے سے فائلیں جاری کی گئیں مثلا: ہزار پلاٹ ہیں اور دو ہزار فائلیں جاری کر دی گئیں تو ان کو آگے بیچنا ہی جائز نہیں،بطور حوالہ دوسرے شخص سے اصل رقم وصول کی جا سکتی ہے ۔
چنانچہ صورت مسئولہ میں اگر پلاٹ قرعہ اندازی کے ذریعے متعین ہو چکے تھے کہ کس سیکٹر میں کس محل وقوع کس کا پلاٹ ہے تو ان کو نفع پر بیچنا جائز تھا اور ڈیلر کا اجرت لینا بھی جائز تھا،لیکن اگر ابھی تک قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹ متعین نہیں ہوئے تھے تو ان کو نفع پر بیچنا جائز نہیں تھا۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:(التوكيل صحيح) بالكتاب والسنة، قال تعالى :فابعثوا أحدكم بورقكم ووكل عليه الصلاة والسلام حكيم بن حزام بشراء أضحية ، وعليه الإجماع.
(الدر المختار مع حاشية رد المحتار:٥/٥٠٩)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى :ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي عزمية.
(قوله: على الصحيح) حاصله: أنه إذا سمى جملة الذرعان صح، وإلا فقيل: لا يجوز عندهما للجهالة والصحيح الجواز عندهما؛ لأنها جهالة بيدهما أي المتبايعين إزالتها بأن تقاس كلها، فيعلم نسبة العشرة منها فيعلم المبيع، فتح. (رد المحتار:٤/٥٤٥)
قال جمع المؤلفين :يلزم أن يكون المبيع مقدور التسليم... يلزم أن يكون المبيع معلوما عند المشتري... يصير المبيع معلوما ببيان أحواله وصفاته التي تميزه عن غيره مثلا لو باعه كذا مدا من الحنطة الحمراء أو باعه أرضا مع بيان حدودها صار المبيع معلوما وصح البيع.(مجلة الأحكام العدلية:٤١)
قال جمع المؤلفين :إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة.
(مجلة الأحكام العدلية:٢٨٥)
قال جمع المؤلفين :الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان
مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.(مجلة الأحكام العدلية:٣٣)
ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة.(الفتاوى الهندية:٣/٣)
(وصح بيع عشرة أسهم) أو أقل أو أكثر (من مائة سهم من دار) أو غيرها بالاتفاق؛ لأن العشرة منها اسم لجزء شائع والسهم أيضا اسم لشائع لا لموضع معين وبيع الشائع جائز ،فيصير من له عشرة أسهم شريكا لمن له تسعون سهما فلا يؤدي إلى المنازعة .(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:٢/١٣)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:(صح بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه) من بائعه لعدم الغرر لندرة هلاك العقار.(الدر المختار مع حاشية رد المحتار:٥/١٤٧)
(صح بيع العقار قبل قبضه) أي: عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد: لا يجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما: أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه؛ لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به عملا بدلائل الجواز.(البحر الرائق :٦/١٢٦)
مصارف الدلالة :إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع ولا يعود البائع بشيء من ذلك على المشتري؛ لأنه العاقد حقيقة وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا ؛لأنه لا وجه له. أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ،ثم باع صاحب المال ماله ينظر، فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه أو من المشتري أخذت منه أو من الاثنين أخذت منهما. (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:١/٢٧٢)
للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلا وكذلك يجوز له أن يهبه ، وقد جوزه الشيخان استحسانا ؛لأن ركن البيع أن يصدر من أهله أن يكون البائع والمشتري مميزين عاقلين وأن يقع في محله أي: في مال متقوم وبما أن الهلاك نادر في العقار ولا اعتبار للنادر، فليس في بيع العقار قبل القبض غرر الانفساخ، كما في بيع المنقول. (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:١/٢٣٦)
احسن ظفر قریشی
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
13 شعبان المعظم 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |