83299 | زکوة کابیان | سامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان |
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مفتیان کرام میرے ایک دوست جو اسلام آباد میں ایک دس منزلہ بلڈنگ اپارٹمنٹ کی صورت میں بیچنےکی نیت سے تعمیر کررہا ہے ۔تعمیر اب ابتدائی مراحل میں ہی ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے ان اپارٹمنٹس کو قسطوں میں بیچنا بھی شروع کیاہے اور کچھ اپارٹمنٹس کی بکنگ بھی ہوچکی ہے اور تعمیرات بھی جاری ہیں ۔اور یہ بھی واضح رہے کہ اس بلڈنگ کا گراؤنڈ فلور اپنے پاس رکھ کر اس میں اپنا بزنس شروع کرے گا۔اپ پوچھنا یہ ہےکہ اس پراجیکٹ پر زکاۃ کیسے ادا کی جائے گی ؟کیا تعمیراتی اخراجات کو بھی زکاۃ میں شامل کیا جائے گا؟ یا تعمیراتی اخراجات کو نکال کر صرف پلاٹ کی قیمت پر زکوٰۃ ادا کی جائے ؟برائےمہربانی مکمل راہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس تمام منصوبے میں لگا ہوا مال،مال تجارت ہے ،لہذا زکاۃ کی تاریخ پر تمام منصوبے کی قیمت لگائی جائے گی اور تعمیر شدہ پلازے کی قیمت اور بقایا اقساط پر زکاۃ ہو گی، البتہ غیر تعمیر شدہ کی وصول کردہ اقساط پر زکاۃ نہیں ہو گی ،کیونکہ تعمیر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے عوض پر پوری ملکیت نہیں آئے گی اور عوض پر ملکیت مکمل طور پر نہ ہو تو اس پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی۔اسی طرح قرضے ،ادھار خریداری ،ٹھیکیدار کو دینے والی رقم ،ایڈوانس کو منہا کر کے جو باقی بچے اس پر زکاۃ ادا کرنا ہو گی۔
حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه الله تعالى:وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم.(بدائع الصنائع :٥/٣)
والملك الناقص لا يصح سببا لوجوب الزكاة.(الفتاوى التاتارخانية:٣/٢٣١)
قال العلامة الكاساني رحمه الله تعالى:وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم، فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب ،فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء... وأما صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة، وهو أن يمسكها للتجارة، وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة... وأما مقدار الواجب من هذا النصاب فما هو مقدار الواجب من نصاب الذهب والفضة وهو ربع العشر.(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:٢/٢١)
قال العلامة الكاساني رحمه الله تعالى:وجوب الزكاة في أموال التجارة يتعلق بمعنى المال وهو المالية والقيمة فكان الحول منعقدا على المعنى.(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:٢/١٥)
قال جمع من المؤلفين رحمهم الله تعالى:الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب ،كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات.(الفتاوى الهندية:١/١٧٩)
قال العلامة المرغيناني رحمه الله تعالى:ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه... وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا؛ لفراغه عن الحاجة والمراد به دين له مطالب من جهة العباد.(الهداية في شرح بداية المبتدي:١/٩٥)
(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم.(الدر المختار مع حاشية رد المحتار:٢/٣٠٥)
احسن ظفر قریشی
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
8 شعبان المعظم 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |