83245/63 | سود اور جوے کے مسائل | مختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان |
سوال
السلام علیکم ! میں پاک فوج میں ملازم ہوں۔ میں نے پراویڈنٹ نکال کر کچھ پیسے واپس جمع کر دیے تھے۔ میں نے فنڈ پر سود نہ لینے کی درخواست بھی دی تھی اور دفتر والوں نے بتایا کہ ہم نے سود ختم کردیا، لیکن آج جو سٹیٹمنٹ آئی اس میں سود لگا ہوا ہے اور فوج نے میرا سود ختم نہیں کیا۔ اس صورت میں مہربانی فرما کر میری رہنمائی فرمائیں۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ میرے پیسے اور سود والے پیسے کتنے ہیں۔
وضاحت:سائل نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے پراوڈنٹ فنڈ میں پیسے جمع کروائے تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ادارہ جو رقم تنخواہ میں سے کاٹتا ہے ضروری نہیں کہ وہ سودی اکاؤنٹ میں ہی رکھے بلکہ غیر سودی اکاؤنٹ میں بھی رکھ سکتا ہے یا کسی حلال کاروبار میں بھی لگا سکتا ہے ،لہذا اس اکاؤنٹ یا کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع کوسود کہنا درست نہیں ہو گا جب تک کہ بینک اس رقم کو سودی اکاؤنٹ میں نہ رکھے ۔اگر واقعی ادارہ ملازم کی اجازت سے وہ رقم سودی اکاؤنٹ میں رکھے اور بینک سے نکال کر ملازم کو دے تو بھی ملازم کے لیے اس پر نفع لینا جائز ہو گا ،کیونکہ اس رقم پر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ رقم ملازم کی ملکیت میں نہیں آتی ،لہذا ملازم کا اپنے اختیار سے کٹوتی کروانے کا اعتبار نہ ہو گا ۔لیکن اس معاملے میں اگرچہ ملازم کی طرف سے سودی معاملہ نہیں پایا جاتا ،مگر سود کی مشابہت بہر حال پائی جا تی ہے ،لہذا بہتر ہے کہ ملازم اضافہ نہ لے یا لے لیا ہو تو صدقہ کر دے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى:قوله: (كل قرض جر نفعا حرام) أي :إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة :وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به.(رد المحتار:٥/١٦٦)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى:والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه. (رد المحتار:٥/٩٩)
الآجر لا يملك الأجرة بنفس العقد لا يلزم المستأجر أداؤها …الأجرة إذا كانت عينا لا تملك بنفس العقد وإن كانت دينا تملك بنفس العقد وتكون بمنزلة الدين المؤجل.
(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:١/٥٢٩)
قوله : (بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة .والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك ،كما أشار إليه القدوري في مختصره؛ لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر ،كذا في المحيط، لكن ليس له بيعها قبل قبضها.(البحر الرائق : ٨/٣٠٠)
(الربا)...في الشرع فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال.(البناية شرح الهداية:٨/٢٦٠)
احسن ظفر قریشی
دار الافتاء،جامعۃ الرشید،کراچی
30 رجب المرجب 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |