021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
 واقفین میں سےایک واقف کاپوتا مسجدکےامام کو تبدیل کرنےپراصرارکرے توکیاحکم ہوگا؟
83677وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !کیا فرماتے ہیں  علمائے دین اور مفتیان عظام   اس مسئلےکےبارے میں کہ یہاں گاؤں میں تین بھائیوں نے مشترکہ طور پر ایک قطعۂ زمین مسجد کیلئے  وقف کردی تھی۔ اس میں محلے کا ایک شخص امام بنا جو مسجد کی تعمیر کیلئے چندہ اکھٹا کرنے اور تعمیراتی کام میں بہت محنت کیا کرتا تھا۔اُس نے اس مسجد میں کئی سال امامت  کی ہےجوکہ لوگوں کی چندہ ہی پرتعمیر ہواہے،تینوں بھائی اب وفات پا چکے ہیں،حال ہی میں واقفان  میں سے ایک بھائی  کاپوتا  ایک مدرسہ سےتحصیل علم کرکے عالم بن گیاہے۔  اِس ایک بھائی کے ورثاء چاہتے ہیں کہ چونکہ یہ زمین ہم نے وقف کی تھی ،اس لئے اِس میں ہمارا بندہ امام ہونا چاہئے اورسابقہ امام امامت چھوڑ کر چلا جائے۔

 اِس تنازعے کےبعدمحلےکےتقریباًسارے لوگ سابقہ  امام کےطرفدار ہوگئےاورانہوں نےتحریراًاپنے دستخطوں کے ذریعےبھی اِس کا اظہار کیا ہے کہ ہم سارے محلےوالے اپنےسابقہ امام کو چاہتے ہیں۔ نئے عالم کے لوگ اپنی بات پراس لئے زور دے رہے ہیں کہ مسجد کی زمین اُن کی وقف کردہ ہے حالانکہ   اِ س ایک بھائی کے ورثاء کے علاوہ دوسرے دو بھائیوں (واقفان )کے ورثاء اِس کے حق میں نہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ سابقہ امام ہی برقرار رہے۔ لہذا شرعی لحاظ سے ہماری رہنمائی فرمائیں  کہ سابقہ امام کو محض مذکورہ بالا بات پر معزول کیا جاسکتاہے  یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں مسجدکےلیےجگہ وقف کرتےوقت اگریہ طےکیاگیاتھا کہ   مسجد کےامام کی تقرری صرف  وقف کرنےوالےیاان کےورثہ ہی  کریں گے،ان کےعلاوہ کسی کواختیارنہ ہوگایا مثلایہ طےہواہوکہ وقف کرنےوالوں کےورثہ میں سےہی اگرکوئی عالم ہوتومسجد کاامام وہی متعین ہوگاتوپھر"شرط الواقف کنص الشارع"  کےاصول کےمطابق مذکورہ فیصلہ درست ہوگا۔

لہذاایسےمیں وقف  کرنےوالوں کےورثہ میں موجود عالم امامت  کازیاد ہ حقدارہوگا،البتہ اس صورت میں سابقہ امام کوبغیرکسی وجہ کےمسجد سےمکمل طورپرنکالنا اورمعزول کرنا درست نہیں ہوگا،نائب امام وغیرہ کےطورپر تقرری کی جائےاورسابقہ تنخواہ ہی برقراررکھی جائےتاکہ معاشی حوالےسےمشکلات کاشکار نہ ہو۔

لیکن اگروقف کےوقت امامت کےحوالےسےکوئی خاص چیز طےنہیں کی گئی بلکہ متولی وقف کےذمہ یہ چیزیں تھیں اوراس نےشرعی طورپرامامت کی شرائط وغیرہ کو دیکھتےہوئےامام کی تقرری کردی تھی توپھرمذکورہ فیصلہ شرعادرست نہیں ہوگا،کہ صرف اپنےرشتہ دارہونےکی وجہ سےسابقہ امام کو معزول کیاجائےیہ سابقہ امام کےساتھ ناانصافی اورظلم ہوگا،حتی الامکان ا س سےبچنا لازم ہوگا۔

موجودہ مسئلہ میں چونکہ وقف کرنےوالوں کےورثہ میں سےصرف ایک بھائی کےورثہ کااس پر اصرارہے،جبکہ دوسرےبھائی سابقہ امام کےحق میں ہیں اوربظاہرواقفین کی طرف سےامام کی تقرری کی کوئی شرائط وغیرہ بھی طےنہیں کی گئی،بلکہ اب تک خاموشی کی صورت میں اس امام کےتقررکوسب واقفین نے تسلیم کیا ہواتھا،لہذابہتر یہ ہےکہ سابقہ امام کو ہی برقراررکھاجائے،ہاں نئےامام کوبطورنائب امام تقررکردیاجائےتاکہ وہ حسب ضرور ت ساتھ ساتھ امامت کرواتارہے،سابقہ امام کو مکمل طورپرمعزول کرنا شرعا،قانونا ، اخلاقا کسی بھی طرح درست نہیں  ہے۔

حوالہ جات
"الأشباه والنظائر - حنفي " 1 /  219: شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم : شرط الواقف كنص الشارع أي : في وجوب العمل به وفي المفهوم والدلالة۔
"البحر الرائق "16 /  9:فلو نص الواقف على مدة فهو على ما شرط، قصرت المدة أو طالت، لان شرط الواقف يراعي، كذا نقله الشارح، وفي الخانية: وإن كان الواقف شرط أن لا يؤجر أكثر من سنة يجب مراعاة شرطه، لا يفتي بجواز هذه الاجارة أكثر من سنة۔
"رد المحتار 17 /  462:( الباني ) للمسجد ( أولى ) من القوم ( بنصب الإمام والمؤذن في المختار إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه ) الباني۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" 14 / 493:فإن قلت : هل الوصف في الموقوف عليهم كصريح الشرط كما لو وقف على إمام حنفي قلت : نعم فلا يجوز تقرير غير الحنفي ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

25/شوال       1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے