83694 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
میں نوکری کرنے لگا تو والد صاحب کے ساتھ گھر کے معاملات میں شامل رہا، مگر بچت والدہ کےپاس الگ رہتی تھی، کیونکہ والد صاحب اور والدہ صاحبہ کا حساب الگ الگ تھا، پھر والدہ کے حکم پر دکانیں شروع کر دیں جس جگہ اب سٹور ہے، یہ جگہ والد صاحب کے نام ہے،باقی بلڈنگ پر سب میں نے خرچ کیے، پھر زید کو میڈیکل سٹور بنا کر دینے کا پروگرام بنا تو تقریبا اسی ہزار میں نے لگائے اور باقی والد صاحب اور زید نے لگائے،یہاں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ میرے پاس جب بھی کوئی رقم ہوتی تو میں سب کو بتاتا، مگر والد صاحب زید، بکر یا خالد کبھی نہیں بتاتے تھے اور نہ ہی اب بتاتے ہیں۔ گھرمیں اگرچہ کھانا پینا اکٹھا تھا، مگرہر بھائی اپنی بچت علیحدہ رکھتا تھا، لیکن میرے پاس جب پیسے جمع ہوتے تو میں والد صاحب کو بتاتا تو والد صاحب میرے ساتھ کسی پراپرٹی یا کاروبار میں شریک ہو جاتے تھے۔
والد صاحب ریٹائرڈ ہوئے تو ان کو چھ لاکھ ملے،انہوں نے کہا تم جو مرضی کاروبار کرو، میری رقم بھی ساتھ شامل کرو ،میں نے ٹرانسپورٹ کا کاروبار سوچا اور تلاش شروع کر دی اسی دوران بکر نے فون کیا کہ آپ کہتے تھے کہ ایک اچھا سٹور بنایا جائے تو کیوں نہ اس پر غور کریں؟ میں نے فورا حامی بھر لی اور دس لاکھ میں نے دیےاور ڈھائی لاکھ بیوی کا زیور بیچ کر رقم شامل کر کے سٹور شروع کر دیا، ذہن میں تو شراکت ہی تھی، پھر ابو، بکر اور زید میں سٹور کے معاملات میں اختلاف ہوتے، تو بٹھا کر سلجھا دئیے جاتے، مجھے کبھی حساب نہ دیا جاتا، مانگنے کے باوجود ابو جی اور بکر اس میں سے مرضی کے مطابق پیسے لیتے رہتے، پھر 2015 میں میں نے ابو سے درخواست کی کہ میں آپ کے ساتھ ہمیشہ ہر معاملہ میں شامل ہوتا ہوں، اب آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی جائیدادخودخریدوں، انہوں نے اجازت دے دی، اس سے پہلے زیدیا بکر یا خالد ابو جی سے کوئی شراکت نہیں کرتے تھے، اب وفات سے کچھ عرصہ قبل ابو جی نے سب بھائیوں کو بٹھایا اور کہا کہ گھر والی جگہ چاروں بھائیوں کی جس میں تقریبا کم یا زیادہ سب نے حصہ ڈالا ہے، سٹور والی جگہ بلڈنگ سمیت (جبكہ یہ جگہ ابو کے نام تھی اور بلڈنگ نوے فیصد میرے پیسوں سے بنی تھی) وہ زیداور بکر کی اور سامنے والی سائل(ناصر) اور خالد کی جو کہ سائل(ناصر)، زید، اور خالد تينوں کے نام ہے اور سٹور بکر کا ۔(جو کہ ابو اور میرے پیسوں کے شروع ہوا تھا) اور میڈیکل سٹور زید کا (يہ بھی ابو،زید اور میرے پیسوں سے شروع ہوا تھا) خالد کا۔اب جائیداد کی تقسیم کیسے ہو؟ جبکہ والد صاحب وفات پا چکے ہیں، ان کے نام یہ جائیداد تھی:
والد صاحب کے نام جائیداد :
۱- کمرشل سٹور والی جگہ پانچ مرلہ ،جس پر بلڈنگ میں نے بنوائی، اس نیت سے بنوائی تھی کہ سب کی مشترکہ ہو گی۔
۲- ایک مکان تقریباً ساڑھے سات مرلہ
۳- دس مرلہ پلاٹ جس کی ساری رقم میں نے ادا کی اور سب اس پر متفق ہیں کہ یہ ناصر ہی کا ہے۔
۴- جنرل سٹور جس کے آغاز میں والد صاحب نے چھ لاکھ اور ناصر یعنی میں نے ساڑھے چھ لاکھ شامل کیا تھا، والد صاحب اور بکر مل کر چلاتے تھے اور اب کروڑوں کی مالیت کا ہے اور ناصر کو مانگنے پر بھی کبھی حساب نہیں دیا گیا اور اب والد صاحب کے کہنے پر بکر مالک بن گیا اور ناصر کو اپنا حصہ مانگنے پر بھی نہیں دیا۔
چاروں بھائیوں کے نام جائیداد:
۱- ایک مکان جس میں چاروں بھائی رہائش پذیر ہیں۔
۲- کمرشل عمارت ساڑھے سات مرلہ ۔یہ عمارت والد صاحب نے اپنے نام کی پانچ دوکانیں ایک پلاٹ اور ایک مرحومہ والدہ صاحبہ کا پلاٹ فروخت کرکے خریدا تھا، میرے خیال میں اس میں والد صاحب کو والدہ کے پلاٹ سے بہن کا حصہ دے کر بیٹوں کے نام خریدنا چاہیے تھا، ایک بار ابو نے بہن سے کہا کہ میں تمہیں ساری جائیداد میں سے تمہارا حصہ نقد دے دیتا ہوں اور پھر بیس لاکھ کے قریب دے دیا، باقی کوئی حساب نہیں کہ کتنا بنتا ہے؟ اب جائیداد کی تقسیم کیسے ہو گی؟
وضاحت: سائل نے بتایا کہ والد صاحب نے جب یہ تقسیم کی تھی اسی وقت سے میں اس پر راضی نہیں تھا اور میں نے اس پر اعتراض بھی کیا تھا کہ مجھے میرا حق نہیں دیا گیا۔والدہ کا انتقال چودہ سال پہلے ہو گیا تھا، ان کے پاس ایک پلاٹ تھا، جو والد صاحب کے نام کروا دیا گیا تھا اور اس کو فروخت کرکے والد صاحب نے کمرشل پلاٹ میں پیسے شامل کیے تھے اور بہن کو حصہ نہیں ملا تھا۔اس لیے میرے خیال میں بہن کو بیس لاکھ روپیہ اس کے شرعی حصہ سے کم دیا گیا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق چونکہ ہر بھائی اپنی بچت علیحدہ علیحدہ رکھتا تھا، اس کا مطلب یہ کہ صرف گھریلو معاملات کی حد تک بھائیوں کی شرکت تھی، اس کے علاوہ اپنی آمدن اور بچت میں ہربھائی تصرف کرنے میں بااختیار تھا، لہذا جس بھائی نے اپنی بچت سے جو پراپرٹی خریدی شرعاً وہی اس کا مالک ہے۔ اسی طرح جو پراپرٹی آپ نے اپنی ذاتی رقم سے خریدی ہے، آپ ہی اس کے مالک ہیں۔
جہاں تک والد صاحب کے جائیداد تقسیم کرنے کا تعلق ہے تو اصولی طور پر والد صاحب شرعاً صرف اسی پراپرٹی کو تقسیم کرنے کا اختیار رکھتے تھے، جن کے وہ مالک تھے، اسی طرح والد صاحب کے کہنے پر سٹور کی جگہ پر آپ نے جو بلڈنگ بنائی تھی وہ چونکہ آپ نے والدین کے ساتھ تعاون کے ارادے سے بنائی تھی ،جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، اس لیے وہ بھی والد صاحب کی پراپرٹی شمار ہو گی۔اس تمام جائیداد کی تقسیم میں بھی ان پر لازم تھا کہ وہ سب بیٹوں اور بیٹی کو برابر حصہ دیتے یا کم از کم بیٹی کو بیٹے کی بنسبت آدھا حصہ دیتے، لہذا والد صاحب کا اپنی مرضی سےآپ کی خریدی گئی جائیداد دیگر بیٹوں میں تقسیم کرنا اور بیٹی کو صرف بیس لاکھ روپیہ دے کر فارغ کرنا درست نہیں تھا۔
اب حکم یہ ہے کہ والد صاحب اپنی زندگی میں اپنی ملکیت میں موجود جو پراپرٹی جس بیٹے کو مالک اور قابض بنا کر دے گئے شرعا وہی اس کا مالک ہے اور اب اس سے وہ پراپرٹی زبردستی نہیں لی جا سکتی۔ البتہ چونکہ اس تقسیم میں آپ کی ذاتی ملکیت بھی والد صاحب نے دوسرے بھائیوں کو دی ہے، جس کے نتیجہ میں بعض بھائیوں کو آپ کی پراپرٹی ملی ہو گی اور وہ والد صاحب کی پراپرٹی سے محروم رہے ہوں گے، جبکہ یہ والد صاحب کے لیے شرعاً جائز نہیں تھا۔ اس لیے اب بہتر یہ ہے کہ تمام بھائی اور بہن باہمی رضامندی سے اس تمام جائیداد کو دوبارہ تقسیم کر لیں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلےاس جائیداد میں سے آپ اپنا ملکیتی حصہ علیحدہ کر لیں، اس کے بعد والد صاحب کی مکمل پراپرٹی کی قیمت لگا کر اس کو اس طرح تقسیم کیا جائے کہ بہن کو ملنے والا حصہ ہر بھائی کو ملنے والے حصے کے کم از کم نصف کے برابر ہو۔ اس طرح تقسیم کرنے سے والد صاحب کے ساتھ بھی ان شاء اللہ آخرت میں آسانی کا معاملہ ہو گا اور بہن بھائیوں کے آپس کے تعلقات بھی اچھے رہیں گے۔
باقی جس پراپرٹی میں آپ نے والد صاحب کے ساتھ اپنے نفع کی خاطر شرکت کی ہے وہ پراپرٹی آپ اور والد صاحب کے درمیان مشترک تھی، جس کی قیمت لگا کر آپ اپنی انویسٹمنٹ کے حساب سے اس میں حصہ دار ہیں اور دیگر بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ اس میں سے آپ کا شرعی حصہ آپ کے حوالے کریں، ان کا والد صاحب کی تقسیم کو حتمی سمجھ کر خاموشی اختیار کرنا اور آپ کے حصے کی پراپرٹی کا اپنے آپ کو مالک سمجھنا ہرگز جائز نہیں، والد صاحب چونکہ آپ کی پراپرٹی کے مالک نہیں تھے اور شرعاً ان کو اس میں تصرف کا اختیار بھی نہیں تھا۔اس لیے والد صاحب کے دیگر بھائیوں کو آپ کی ملکیتی پراپرٹی دےجانے سے شرعاً وہ اس کے مالک نہیں بنیں، بلکہ وہ پراپرٹی بدستور آپ کی ملکیت میں شمارہو گی اور دوسرے بھائی وہ پراپرٹی آپ کو واپس نہ کرنے سے سخت گناہ گار ہوں گے۔باقی آپ اپنی مرضی سے اپنے جس بھائی کو جو پراپرٹی دینا چاہیں تو اس میں آپ بااختیار ہیں اور اس کا آپ کو اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ملے گا، اس لیے صلح کے ساتھ معاملہ کو حل کر لیا جائے، تاکہ آپس کے تعلقات خراب نہ ہوں اور قطع رحمی تک نوبت نہ آئے۔
حوالہ جات
حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 43) دار الجيل - بيروت:
"وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء".
مجمع الضمانات (ص: 143) دار الكتاب الإسلامي، بيروت:
الباب العاشر في التصرف في مال الغير بلا إذن: لا يجوز التصرف في مال الغير بلا إذن، ولا دلالة إلا في مسائل: الأولى يجوز للولد والوالد الشراء من مال المريض ما يحتاج إليه بغير إذنه.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
28/شوال المکرم 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |