03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کا شوہر کے ساتھ نہ رہنے کی صورت میں پورا مہر کے مطالبے کا حکم
83725نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

میری شادی کو ایک سال ہو گیا ہے اور پچھلے چھ مہینے سے اب میری بیوی بنا کسی وجہ کے میرا گھر چھوڑ کے میکے چلی گئی ہے  (اگر چہ میں اپنی بیوی کی ساری ضرورتیں بھی پوری کرتا تھا اوراسکے علاوہ ہر ماہ میں کچھ پیسے نقد بھی دیتا تھا ،لیکن وہ پھر بھی چھوڑ کے چلی  گئی ہے،حالانکہ  اللہ گواہ ہے کہ میں نے  اپنی  بیوی کی ایسی ایسی باتیں بھی برداشت کی ہیں کہ اگر کوئی  اور ہوتا تو ہرگز نہ کرتا، لیکن اللہ کی خوشنودی اور اپنی عزت کی خاطر سب کچھ برداشت کرنا پڑا)
میں نے خود بھی اپنی بیوی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی اور تین دفعہ میرے گھر کے بڑے بھی لانے کے  لیے گئے  ہیں، لیکن وہ واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔  پہلے وہ مطالبہ کر رہی تھی کہ آپ ادھرآکے رہو یا جہاں آپ رہتے ہو، مجھے بھی اپنے پاس رکھو، لیکن میری ڈیوٹی کی نوعیت ایسی ہے کہ جس میں پورا پورا مہینہ نائیٹ ڈیوٹی بھی کرنی ہوتی ہے اور اس صورت میں میری بیوی کو وہاں اکیلے گھر پہ رہنا پڑے گا، جو کہ میں نہیں چاہتا،حالانکہ میں ہرجمعہ کو گھر آجاتا ہوں اور دو دن گھرپہ گزارتا ہوں۔  میرے گھر میں بوڑھے ماں باپ ہیں، جن کا خرچہ اور اپنے چھوٹے بھائی کی تعلیم کا خرچہ میں اٹھا رہا ہوں، میری بیوی کو اس سے بھی مسئلہ تھا ۔ وہ جاتے وقت مہر کا آدھے سے زیادہ حصہ ساتھ لے کے گئی ہے اور جو مہر وہ چھوڑ کے گئی ہے، اب وہ اسکا مطالبہ کر رہی ہے کہ یہ میرا حق ہے اور میں وہ دینے کےلیے تیار ہوں، لیکن وہ ساتھ میں یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ اس نے میکے میں ہی رہنا ہے اورواپس نہیں آنا ۔ تو کیا ایسی صورت میں اپنی بیوی کو حقِ مہر دینا مجھ پہ فرض ہے یا نہیں ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب بیوی کی رخصتی ہوجائے ، تو اس کا اپنے شوہر کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنا ضروری ہے،  شوہر جہاں سکونت اختیار کرنا چاہے، وہیں بیوی کو بھی ساتھ  رہناضروری ہے،لہذا بیوی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جہاں چاہے ، وہیں رہنے پر اصرارکرے اور بلا وجہ شوہر کو  مجبور کرےکہ فلاں جگہ رہنا ہے اور فلاں جگہ نہیں رہنا، البتہ ایسی صورت میں  شوہر پر بیوی کا حق مہر معاف نہ ہوگا، بلکہ وہ اپنے پورے مہر کی شرعا مستحق ہوگی، لہذا صورت مسئولہ میں شوہر پر لازم ہے کہ اگر مہر کی ادائیگی بوقت مطالبہ طے ہے، تو  اس کا  بقیہ مہر بھی اس کے حوالہ کردےاور جب تک بیوی شوہر کے کہنے پرگھر واپس نہیں  آتی، تب تک شوہر پر سے اس کا نان نفقہ(خرچہ) ساقط ہوگا، ایسی صورت میں بیوی کو کسی قسم کے نفقہ کے مطالبہ کا حق نہ ہوگا۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 287):

"المهر في النكاح الصحيح يجب بالعقد؛ لأنه إحداث الملك، والمهر يجب بمقابلة إحداث الملك؛ ولأنه عقد معاوضة وهو معاوضة البضع بالمهر فيقتضي وجوب العوض كالبيع"

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 288):

وإذا طالبت المرأة بالمهر يجب على الزوج تسليمه أولا؛ لأن حق الزوج في المرأة متعين، وحق المرأة في المهر لم يتعين بالعقد، وإنما يتعين بالقبض فوجب على الزوج التسليم عند المطالبة ليتعين .

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (ج 7 / ص 318):

 لا تجب النفقة للناشزة ، وهي الخارجة من بيت زوجها بغير إذنه المانعة نفسها منه...ولو عادت الناشزة إلى منزل الزوج وجبت لها النفقة لزوال المانع.

صفی اللہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

03/ذی قعدہ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب