83797 | طلاق کے احکام | صریح طلاق کابیان |
سوال
ایک شخص اپنی طلاق یافتہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہ رہا ہے کیوں کہ کتابت میں اس نے اپنی بیوی کو ایک ہی طلاق دی ہے اور براہ راست اپنی بیوی کو کوئی طلاق نہیں دی، جبکہ اس کی بھا بھی جو کہ لڑکی کی بہن بھی ہے، اس بات پر مصرہے کہ کتابت والی طلاق سے پہلے اس نے زبانی بھی تین طلاقیں دی ہیں اورجس محفل کا وہ حوالہ دے رہی ہے وہ محفل کچھ یوں منعقد تھی ، مخاطبین یعنی لڑکے کی والدہ اور لڑکے کی بہن پہلی منزل پر موجود تھے، مخاطب یعنی لڑکاسیٹرھیوں سے اوپر چڑھتا ہوا آ رہا تھا، اور سامع یعنی لڑکی کی بہن مصلے پر نماز پڑھ رہی تھی ، اور گھر میں باقی افراد ( لڑکے کے دو بھائی دو بھانجےاور ایک بھانجی اور ابو ) معمول کے مطابق کچھ موجود تھے اور کچھ نہیں تھے ، ان میں سے کسی کے ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی، لیکن کچھ موجود تھے اور کچھ موجود نہیں تھے، لیکن لڑکے کی ماں اور بہن کے علاوہ کوئی بھی اس محفل کا حصہ نہیں تھا، اور یہ کوئی خفیہ محفل بھی نہیں تھی ۔
لڑکی کی بہن کا بیان: لڑکا سیڑھیوں سے چڑھتا ہوا اوپر آ رہا تھا تو لڑکے کی بہن نےاسے کچھ بولا جس پر لڑکے نے کہا کہ میں اسے نہیں لے کر آؤں گا اور میری طلاق ہے، طلاق ہے ، طلاق ہے۔
لڑکے کا موقف: لڑکے کی بہن اسے منارہی تھی کہ وہ لڑکی کو گھر لے آئے لڑکابہن کو کسی قسم کا جواب دینے سے قاصر ہوکر اوپر اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا، اس نے جاتے ہوئے بہن سے کہا کہ صبح 6 بجے تک اگر آپ لا سکتے ہو تو لےآؤاور اس نے طلاق کے کوئی الفاظ ادا نہیں کیے۔لڑکے کی ماں اور بہن جو کہ مخاطبین ہیں، انہوں نے طلاق کے الفاظ سننے سےانکار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے طلاق کے کوئی الفاظ نہیں سنے ہیں اورخود لڑکا بھی اس الزام کو حلفیہ مستر د کر نے کے لیے تیار ہے، صورت مذکورہ میں مندرجہ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) اس صورت میں دوبارہ نکاح کا کیا حکم ہے؟ کیا ایک طلاق واقع ہوئی یا تین؟
(2) لڑکی کی بہن کا کہنا ہے کہ اسے چونکہ تین طلاقیں یاد ہیں اور وہ اس پرحلفیہ بیان دینے کو تیار ہے، اس لیے وہ اس رشتے کی راہ میں ہر طرح سے حائل ہونے کی کوشش کرے گی ، تو اس کے اس عمل کا کیا حکم ہے؟
(3) اگربہن کی گواہی معتبر نہیں ہے تو کیا لڑکی کی بہن اب ان کا رشتہ ہونے کے بعدان سے تعلق رکھ سکتی ہے؟
وضاحت: فون کے ذریعہ مذکورہ شخص کی بیوی کا موقف معلوم کیا گیا تو اس نے بتایا کہ مجھے اپنی بہن کی بات پر یقین ہے کہ میرا شوہر مجھے تین طلاقیں دے چکا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
- بطور تمہید جاننا چاہیے کہ میاں اور بیوی کے درمیان طلاق کے معاملے میں اختلاف کی صورت میں دیانت اور قضاء کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے، قضاءً مرد کا قول اور دیانتاً عورت کا قول معتبر ہوتا ہے، قضاءً کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاملہ عدالت میں پہنچ جائے اور عورت کے پاس اپنے دعوی پر گواہ نہ ہوں تو قاضی مرد سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا اور اس صورت میں خاوند اگر جھوٹا ہوا تو اس کا گناہ اور وبال اسی پر ہو گا اوردیانتاً یعنی "فیما بینہ وبین اللہ" عورت اس کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ دیانتاً کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت خودخاوند سے تین طلاق کے الفاظ سن لے یا اس کو کسی دیندار آدمی کے خبر دینے سے شوہر کی طرف سے تین طلاق دینے کا یقین ہو جائے تو وہ شرعاً اپنی ذات کے حق میں اسی پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اور اس کے لیے خاوند کو اپنے اوپرہمبستری وغیرہ کے لیےقدرت دینا اور اس کے ساتھ رہنا ہرگز جائز نہیں ہوتا۔( بعض فقہائے کرام نے طلاقِ بائن کا بھی یہی حکم لکھا ہے، کیونکہ اس طلاق سے بھی نکاح فورا ختم ہو جاتا ہے اور عورت مرد پر حرام ہو جاتی ہے کذا فی البحرالرائق)۔کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:"المرٲة کالقاضی" یعنی عورت کا حکم قاضی کی طرح ہے، مطلب یہ کہ جس طرح قاضی ظاہری صورتِ حال کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی طرح عورت پربھی خاوند کے ظاہری الفاظ کے مطابق عمل کرنا لازم ہے، اگرچہ عدالت گواہی نہ ہونے کی وجہ سے خاوند کے حق میں فیصلہ کردے،کیونکہ ایسی صورت میں عورت درحقیقت دیانت پر ہی عمل کرنے کی پابند ہے۔
لہذا صورتِ مسؤلہ میں اگر لڑکی کی بہن غلط بیانی سے کام نہیں لے رہی اور لڑکی کو اس بات پر یقین ہے، جیسا کہ سوال میں مذکور ہےتو اس صورت میں دیانتاً بیوی کی بات معتبر مانی جائے گی اور اس کے بیان کے مطابق شوہرکتابتِ طلاق سے پہلے زبانی طور پر تین طلاقیں دے چکا ہے، لہذا اب عورت پر تین طلاقیں واقع ہوکر فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے اور اس پر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، حرمتِ مغلظہ کا مطلب یہ ہے کہ اب فریقین کے درمیان رجوع نہیں ہو سکتا اور موجودہ صورتِ حال میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا اور یہ اہلِ السنة والجماعت یعنی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا متفقہ مسئلہ ہے، اس لیے اب ان دونوں کا اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں۔ اور عورت عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ اگر یہ عورت اپنے سابقہ خاوند (جس نے تین طلاقیں دی ہیں ) سے ہی نکاح کرنا چاہے تو اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ عورت عدت گزارنے کے بعد غیرمشروط طور پرکسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ خاوند عورت سے ہمبستری بھی کرے، پھر وہ اپنی رضامندی سے عورت کو طلاق دیدے یا وہ وفات پا جائے تو اُس خاوند کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں،ورنہ جائز نہیں۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ اب عورت کا اسی حالت میں مرد کے ساتھ رہنا ہرگز جائز نہیں اور صلح کے ذریعہ حرام چیز حلال نہیں ہو سکتی، چنانچہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر عدالت عورت کے پاس گواہ نہ ہونے کی وجہ سے مرد سے قسم لے کر تین طلاق کے عدمِ وقوع کا فیصلہ کر دے تو بھی عورت مرد کے لیے دیانتاً حلال نہیں ہو گی اور اس کا مرد کو ہمبستری وغیرہ کے لیے اپنے اوپر قدرت دینا ہرگز جائز نہیں ہو گا، چنانچہ فقہ حنفی کے ماخذ اور معتبر ترین کتاب "الاصل" (اس کو المبسوط بھی کہا جاتا ہے اوریہ حنفیہ کی ظاہر الروایہ میں سے ایک کتاب ہے) میں امام محمدرحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہےاورحنفیہ کی دیگر کتب میں بھی یہ مسئلہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے کہ عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی عورت مرد کے لیے شرعاً حلال نہیں ہو گی۔
- سوال میں تصریح کے مطابق چونکہ لڑکی کی بہن کو تین طلاق کے وقوع کا یقین ہےاوروہ اس پر حلفیہ بیان دینے کو بھی تیار ہے، جس کے نتیجے میں اب اس لڑکی کا اپنے سابقہ شوہر سے اسی حالت میں حلالہ کے بغیر نکاح کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے، اس لیے لڑکی کی بہن کا نکاح میں رکاوٹ ڈالنا بالکل درست ہے، بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والدین پرزور ڈال کر ان کو اس نکاح سے منع کرے، تاکہ شرعا نکاح درست نہ ہونے کی وجہ سے بدکاری کا ارتکاب لازم نہ آئے۔
- سوالِ اول کے جواب میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اگرچہ عدالت میں دعوی ثابت کرنے کے لیےایک عورت کی گواہی کافی نہیں، لیکن طلاق کے معاملے میں عورت اپنی ذات کے حق میں اپنے علم پر عمل کرنے کی پابند ہے، اگرچہ اس کے پاس کوئی گواہ موجود نہ ہو اور مذکورہ صورت میں چونکہ لڑکی کو اپنی بہن کی بات پر یقین ہے اور اس کے گمان کے مطابق لڑکا اس کو تین طلاقیں دے چکا ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں طلاق کے ثبوت کے لیے شرعی گواہی کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ عورت کو وقوعِ طلاق کا علم ہونا کافی ہے۔
اور اگر بالفرض بہن کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے خاندان کے افراد نے فریقین کا دوبارہ نکاح کر وا دیا تو نکاح میں شریک ہونے والے تمام لوگ بہت سخت گناہ کے مرتکب ہوں گے، نیز ایسی صورت میں لڑکی کی بہن ان سے قطع تعلقی بھی کر سکتی ہے، تاکہ ان دونوں لڑکا لڑکی اور خاندان کے دیگر افراد کو تنبیہ ہو اور وہ اپنے اس گھناؤنے جرم سے باز آجائیں اور فریقین کے درمیان علیحدگی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 376) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ولو أن امرأة أخبرها ثقة أن زوجها الغائب مات عنها، أو طلقها ثلاثا أو كان غير ثقة وأتاها بكتاب من زوجها بالطلاق، ولا تدري أنه كتابه أم لا. إلا أن أكبر رأيها أنه حق" يعني بعد التحري "فلا بأس بأن تعتد ثم تتزوج"؛ لأن القاطع طارئ ولا منازع، وكذا لو قالت لرجل طلقني زوجي وانقضت عدتي فلا بأس أن يتزوجها.
البناية شرح الهداية (12/ 207) دار الكتب العلمية – بيروت:
قوله: ولو أن امرأة أخبرها ثقة إلى قوله وإذا باع المسلم خمرا، من مسائل كتاب " الاستحسان "، ذكرها تفريعا على مسائل " الجامع الصغير ". وكذا لو قالت لرجل: طلقني زوجي وانقضت عدتي فلا بأس بأن يتزوجها. وكذا إذا قالت المطلقة الثلاث: انقضت عدتي وتزوجت بزوج آخر ودخل بي ثم طلقني وانقضت عدتي، فلا بأس بأن يتزوجها الزوج الأول. وكذا لو قالت جارية: كنت أمة لفلان فأعتقني لأن القاطع طارئ، ولو أخبرها مخبر أن أصل النكاح كان فاسدا، أو كان الزوج حين تزوجها مرتدا أو أخاها من الرضاعة لم يقبل قوله حتى يشهد بذلك رجلان أو رجل وامرأتان، وكذا إذا أخبره مخبر: أنك تزوجتها وهي مرتدة أو أختك من الرضاعة لم يتزوج بأختها أو أربع سواها، حتى يشهد بذلك عدلان؛ لأنه أخبر بفساد مقارن، والإقدام على العقد يدل على صحته وإنكار فساده، فثبت المنازع بالظاهر، بخلاف ما إذا كانت المنكوحة صغيرة فأخبر الزوج أنها ارتضعت من أمه أو أخته حيث يقبل قول الواحد فيه؛ لأن القاطع طارئ والإقدام الأول لا يدل على انعدامه.
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي (6/ 26) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
(قوله: ولو أن امرأة أخبرها رجل ثقة أن زوجها إلخ) في الهداية، ولو أن امرأة أخبرها ثقة أن زوجها إلخ. اهـ. (قوله: فلا بأس بأن تعتد ثم تتزوج)، وهذا في الإخبار، وأما في الشهادة فلا يصح، وإن كان الشاهد اثنين؛ لأنه قضاء على الغائب ألا ترى إلى ما ذكر الأسروشني في الفصل الرابع من فصوله إذا شهد اثنان على الطلاق والزوج غائب لا يقبل لعدم الشهادة على الخصم، ولو كان الزوج حاضرا يقبل، وإن لم توجد دعوى المرأة بطريق الحسبة، وهذا في الشهادة عند القاضي أما إذا قالوا لامرأة الغائب إن زوجك طلقك أو أخبرها بذلك واحد عدل فإذا انقضت عدتها حل لها أن تتزوج آخر كذا في الفصول.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 529) دار الفكر-بيروت:
وفي جامع الفصولين أخبرها واحد بموت زوجها أو بردته، أو بتطليقها حل لها التزوج، ولو سمع من هذا الرجل آخر له أن يشهد لأنه من باب الدين فيثبت بخبر الواحد، بخلاف النكاح والنسب. أخبرها عدل أو غير عدل فأتاها بكتاب من زوجها بطلاق ولا تدري أنه كتابه، أو لا إلا أن أكبر رأيها أنه حق فلا بأس بالتزوج. اهـ.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 62) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد، وحلف أنه لم يفعل، وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه، ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا. والحاصل أنه جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل انتهى، وفي الفتاوى السراجية إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها، وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج، ولم يقيده بالديانة، والله أعلم.
قال المصنف - رحمه الله - وقد نقل في القنية قبل ذلك عن شرح السرخسي ما صورته طلق امرأته ثلاثا، وغاب عنها فلها أن تتزوج بزوج آخر بعد العدة ديانة ونقل آخر أنه لا يجوز في المذهب الصحيح اهـ.
قلت إنما رقم لشمس الأئمة الأوزجندي، وهو الموافق لما تقدم عنه، والقائل بأنه المذهب الصحيح العلاء الترجماني ثم رقم بعده لعمر النسفي، وقال حلف بثلاثة فظن أنه لم يحنث، وعلمت الحنث، وظنت أنها لو أخبرته ينكر اليمين فإذا غاب عنها بسبب من الأسباب فلها التحلل ديانة لا قضاء قال عمر النسفي سألت عنها السيد أبا شجاع فكتب أنه يجوز ثم سألته بعد مدة فقال إنه لا يجوز، والظاهر أنه إنما أجاب في امرأة لا يوثق بها اهـ.
كذا في شرح المنظومة، وفي البزازية شهد أن زوجها طلقها ثلاثا إن كان غائبا ساغ لها أن تتزوج بآخر، وإن كان حاضرا لا لأن الزوج إن أنكر احتيج إلى القضاء بالفرقة، ولا يجوز القضاء بها إلا بحضرة الزوج.اهـ.
وفيها سمعت بطلاق زوجها إياها ثلاثا، ولا تقدر على منعه إلا بقتله إن علمت أنه يقربها تقتله بالدواء، ولا تقتل نفسها، وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة تحلفه فإن حلف فالإثم عليه، وإن قتلته فلا شيء عليها، والبائن كالثلاث. اهـ. وفي التتارخانية. وسئل الشيخ أبو القاسم عن امرأة سمعت من زوجها أنه طلقها ثلاثا، ولا تقدر أن تمنعه نفسها هل يسعها أن تقتله في الوقت الذي يريد أن يقربها، ولا تقدر على منعه إلا بالقتل فقال لها أن تقتله، وهكذا كان فتوى الإمام شيخ الإسلام عطاء بن حمزة أبي شجاع، وكان القاضي الإمام الإسبيجابي يقول ليس لها أن تقتله، وفي الملتقط، وعليه الفتوى.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
6/ذوالقعدة1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |