83794 | تقسیم جائیداد کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارےمیں کہ
١۔میرے بھائی ضیاء الدین کی وفات 29 اپریل 2024 کو ہوئی، ورثہ میں ایک بیوہ، دوبیٹے اوردو بیٹیاں ہیں، وراثت میں ایک گھر ہےجس میں گھرکا فرنیچر،الیکٹرانک سامان، گاڑیا اورمختلف چیزیں زیرِ استعمال ہیں، ورثہ سب اسی گھر میں رہتے ہیں سوائے ایک بیٹی کے جو شادی شدہ ہے۔ایک دکان ہے جس میں چوتھا حصہ ان کا ہے، اس کےعلاوہ نقدی بھی ہے،پوچھنا یہ ہےکہ مرحوم کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
۲۔مذکورہ بالاسامان کے علاوہ مرحوم کی بیوی کے پاس وہ زیورات بھی ہیں جو ان کوان کےشوہریعنی مرحوم ضیاء الدین نے شادی کے موقع پر دیئے تھے جس کو ہمارے ہاں "بری" کہتے ہیں،لیکن ملکیت کی وضاحت نہیں کی تھی،ان زیورات کا کیاحکم ہوگا؟ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکرتقسیم ہوں گے؟
۳۔اس کے علاوہ مرحوم کی بیوی کے پاس وہ زیورات بھی ہیں جو ان کو ان کے والدین نے شادی کے موقع پر دیئے تھے،کیا ان میں بھی میراث جاری ہوگی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1) مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات (بشرطیکہ کسی نے تبرعاً نہ کیے ہوں) قرض اوروصیت (اگرکی ہو)کی علی الترتیب ادائیگی کے بعدمرحوم کےانتقال کے وقت اگر ورثہ صرف یہی لوگ ہوں جوسوال میں مذکورہیں توباقی ماندہ کل منقولہ،غیرمنقولہ بشمول سوال میں مذکور اشیاء کے مرحوم کا ترکہ ہے،اس میں سےمرحوم کی بیوہ کو %12.5، ہربیٹے کو%29.167 اورہربیٹی کو%14.583دیا جائے۔
(2)۔لڑکی کو شادی کے موقع پر حقِ مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے جو زیورات دیے جاتے ہیں، اس کی تین صورتیں ہیں:
١- وہ زیورات دلہن کو اس بات کی صراحت کے ساتھ دیے ہوں کہ یہ اسی کی ملکیت ہیں، تو ایسی صورت میں یہ سونا لڑکی کی ملکیت ہوگا، لہذاایسے زیورات میں مرحوم کی میراث جاری نہیں ہوگی، کیونکہ بوقتِ موت مرحوم اس کے مالک نہیں تھے ۔
۲- وہ زیورات لڑکی کو دیتے وقت اس بات کی صراحت کی گئی ہو کہ یہ زیورات بطور عاریت کے ہیں، یعنی صرف استعمال کے لیے ہیں، اس میں لڑکی کی ملکیت نہیں ہے،اس صوت میں یہ سونا دیگرترکہ میں شامل ہوکر اس میں مرحوم کی میراث جاری ہوگی اورہروارث کو اس کا شرعی حصہ ملے گا،تقسیم کا طریقہ وہی ہےجونمبرایک میں گزرا۔
۳- زیورات دیتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہو، تو ایسی صورت میں لڑکے کی برادری اور خاندان کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا، اگر اس لڑکے کی برادری میں دلہن کو سسرال کی طرف سے زیورات وغیرہ بطور ملکیت دیے جاتے ہیں تو اسی پر عمل کیا جائے گا اور وہ زیورات وغیرہ لڑکی کی ملکیت ہوں گے۔اوران میں مرحوم کی میراث جاری نہیں ہوگی۔ اور اگر لڑکے کی برادری اور خاندان میں دلہن کو زیورات وغیرہ بطور عاریت (صرف استعمال کے لیے) دیے جاتے ہیں، تو اسی پر عمل کیا جائے گا،اورزیورات ترکہ میں شامل ہونگے اوران میں میراث جاری ہوگی
لیکن اگر لڑکے کی برادری کا کوئی عرف نہیں ہے اور زیورات دیتے وقت کوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی ہو، تو ایسی صورت میں وہ زیورات اس لڑکی کی ملکیت ہوں گے،اوران میں میراث جاری نہیں ہوگی ۔
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق آپ کی جو صورت بنتی ہو، اس پر عمل کر لیں۔
(3)۔لڑکی کو والدین کی طرف سے ملنے والے زیورات میں مرحوم کی میراث جاری نہیں ہوگی، کیونکہ یہ زیورات ان کی ملکیت نہیں،بلکہ جواب نمبرایک میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہ زیورات یا لڑکی کی ملکیت ہیں یا ان کے والدین کی،مرحوم کی ملکیت نہیں(الایہ کہ یہ زیورات زندگی میں خاوند کوبیوی نے دیدیے ہوں اورقبضہ بھی کرادیاہو) لہذا ان میں مرحوم کی میراث جاری نہیں ہوگی ۔
حوالہ جات
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ." (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال اللہ تعالی :
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ.... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن [النساء/11]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.
رد المحتار: (153/3، ط: دار الفکر)
ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا۔
الھندیة: (327/1، ط: دار الفکر)
وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجتہ أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیہا علی جہۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب
الدر المختار للحصفكي - (ج 3 / ص 165)
(ولو بعث إلى امرأته شيئا ولم يذكر جهة عند الدفع غير) جهة (المهر) كقوله لشمع أو حناء ثم قال إنه من المهر لم يقبل.قنية لوقوعه هدية فلا ينقلب مهرا (فقالت هو) أي المبعوث (هدية وقال هو من المهر) أو من الكسوة أو عارية (فالقول له) بيمينه والبينة لها.
اخرج سعید بن منصور في سننہ عن الشعبي یقول: إذا دخلت المرأۃ علی زوجہا بمتاع أو حلي، ثم ماتت فہو میراث، و إن أقام أہلہا البینۃ أنہ کان عاریۃ عندہا، إلا أن یعلموا ذٰلک زوجہا۔ (سنن سعید بن منصور / باب ما جاء في متاع البیت إذا اختلف فیہ الزوجان ۱؍۳۴۹ رقم: ۱۵۰۳)
والفتویٰ أنہ إن کان العرف مستمراً أن الأب یدفع الجہاز ملکاً لا عاریۃً۔ (الأشباہ والنظائر ۱۵۷)وکذا مسألۃ دعوی الأب عدم تملیکہ البنت الجہاز فقد بنوہا علی العرف مع أن القاعدۃ أن القول للملک في التملیک۔ (شرح عقود رسم المفتي ۹۶)
وفي الہندیۃ:
لو جہز ابنتہ وسلمہ إلیہا لیس لہ في الاستحسان استردادہ منہا وعلیہ الفتویٰ۔ (۱؍۳۲۷ زکریا)
وفی عقود رسم المفتی: الثابت بالعرف کالثابت بالنص۔ (رسم المفتي: ۲۵)
ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا۔
الھندیة: (327/1، ط: دار الفکر)
وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجتہ أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیہا علی جہۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
7/11/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |