021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی نےعدالت سےیک طرفہ خلع لےلیا،جبکہ شوہراس پرراضی نہیں
83798طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

:منسلکہ  دستاویزات میں جو حالات لکھے گئے ہیں ان کی بنیاد پر کوئی عورت عدالت سے یکطرفہ خُلع لیتی ہے تو کیا اُس کا نکاح شریعت کی روشنی میں ختم ہو جائے گا؟

حالانکہ اِس عورت کا شوہر قرآن پر حلف اُٹھا کر یہ بات کہے کے میری بیوی نے یہ جو باتیں لکھی ہیں یہ سب جھوٹ ہیں۔ میری بیوی نے خواہ مخواہ خُلع لیاہے۔

اور خاوند کا یہ بھی کہنا ہے کہ خُلع کے کیس کے دوران میری بیوی سے فون پر بات ہوئی تو میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ میری والدہ اور بہنیں اب نہیں مان رہی اس لیے میں خُلع لے رہی ہوں تو کیا اس صورت میں نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ شوہر عدالت حاضر ہی نہیں ہوااور کیا عورت اس کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے

خاوند بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا، کیونکہ بچے ہیں ، وہ اس کا گھر بسانا چاہتا ہے،لیکن عورت نے یکطرفہ خُلع لیاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

منسلکہ عدالتی فیصلہ چونکہ خلع کافیصلہ ہےاورخلع میں شرعا شوہرکی رضامندی ضروری ہے،اس لیےخلع کامذکورہ بالایک طرفہ عدالتی فیصلہ شرعامعتبرنہیں ہوگا۔بیوی سابقہ شوہرکےنکاح میں ہی رہےگی۔

چونکہ اسباب فرقت(جن صورتوں میں عورت کو عدالت کےذریعہ فسخ نکاح کاشرعااختیارہوتاہے مثلاشوہرمتعنت فی النفقہ(گنجائش کے باوجودنان نفقہ نہ دیتا)ہونا،مجنون ہونا،عنین(نامرد)ہونایامفقودہونا)میں سےبھی بظاہرکوئی سبب نہیں پایاجاتا، (جیساکہ شوہرنےوضاحت کی ہےکہ میری بیوی نےجوباتیں لکھی ہیں یہ سب جھوٹ ہیں)اس لیےیہ فیصلہ شرعافسخ نکاح بھی شمار نہیں ہوگا،لہذامیاں بیوی کا سابقہ نکاح برقرارہے۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرة آیت  229 :فان خفتم ألایقیماحدوداللہ فلاجناح علیہما فیماافتدت بہ۔
"زادالمعاد" 2/238 :وفی تسمیتہ صلی اللہ علیہ وسلم الخلع فدیۃ دلیل علی أن فیہ معنی المعاوضۃ ولہذااعتبرفیہ رضاالزوجین ۔
الموسوعة الکویتیة" 29/  54:الطلاق:نوع من انواع الفرقة وھوملک للزوج وحدہ ،ذالک ان الرجل یملک مفارقة زوجتہ اذاوجد مایدعوہ الی ذالک بعبارتہ وارادتہ المنفردة ،کماتملک الزوجة طلب انھاء علاقتھاالزوجیة اذاوجد مایبررذالک،کاعسارالزوج بالنفقة،وغیبة الزوج،وماالی ذالک من اسباب اختلف الفقہاءفیھاتوسعةوتضییقا۔ولکن ذالک لایکون بعبارتھاوانما بقضاء القاضی  الاان یفوضھا الزوج بالطلاق فانھافی ھذہ الحالۃ تملکہ بقولھاایضا۔
وذھب المالکیة الی اٴن واجب الحکمین الاصلاح اولا،فان عجز اعنہ لتحکمالشقاق کان لھماالتفریق بین الزوجین دون توکیل ،ووجب علی القاضی ،امضاء حکمھمابھذالتفریق ،اذااتفقاعلیہ وان لم یصادف ذالک اجتھادہ ۔ بحوالہ "فتاوی عثمانی "2/462 :"
"ردالمحتارعلی الدرالمختار"3/444:وحکمہ ان)الواقع بہ(ولوبلامال)وبالطلاق الصریح)علی مال طلاق بائن(وثمرتہ فیمالوبطل البدل  کماسیجیء۔
"المبسوط" 8 /  311:"قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرۃ( آیت: 227)وإن عزموا الطلاق فإن الله سميع عليم۔۔۔وهو إشارة إلى أن عزيمة الطلاق بما هو مسموع وذلك بإيقاع الطلاق أو تفريق القاضي ، والمعنى فيه أن التفريق بينهما لدفع الضرر عنها عند فوت الإمساك بالمعروف ، فلا يقع إلا بتفريق القاضي كفرقة العنين ، فإن بعد مضي المدة هناك لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي بل أولى ؛ لأن الزوج هناك معذور وهنا هو ظالم متعنت ، والقاضي منصوب لإزالة الظلم فيأمره أن يوفيها حقها ، أو يفارقها ، فإن أبي ناب عنه في إيقاع الطلاق وهو نظير التفريق بسبب العجز عن النفقة ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

08/ذیقعدہ        1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے