83801 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
اسی طرح دوسرے نمبر والا بھائی یہ ڈیمانڈ بھی کررہا ہے کہ اس نے جو رقم گھر کی تعمیر پر خرچ کی تھی،بقیہ دونوں بھائی مل کر مجھے وہ رقم ادا کریں،یا پھر وراثتی مکان کو فروخت کرکے اس میں سے مجھے وہ رقم ادا کی جائے،اس کے بعد بقیہ رقم کو تقسیم کیا جائے،جبکہ دونوں بھائی صاحب حیثیت ہیں۔
تنقیح:سائلہ سے فون پر معلوم ہوا کہ اس بھائی نے بڑے بھائی کے اصرار پر گھر کی تعمیر پر رقم خرچ کی تھی،جس کی تفصیل یہ ہے کہ گھر کا ایک حصہ بنا ہوا تھا،انہوں نے پہلےدوسرے حصے کے گراؤنڈ فلور کو بنوایا اور اس کےبعد اس کے اوپر دو کمرے مزیدتعمیر کروائے،نچلا حصہ اپنی رہائش کے لئے تعمیر کروایا تھااور اوپر والا بعد میں بہن کی رہائش کے لئے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ اس بھائی نے مکان کی تعمیر تمام ورثا کی رضامندی سے کی تھی،اس لئے انہیں تعمیر کی مدمیں اضافی رقم کے مطالبے کا حق حاصل ہے،زمینی منزل کو چونکہ انہوں نے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کروایا تھا،اس لئے اصولی طور پر زمینی منزل میں انہیں مکان میں موجود ان کے حصے(20%) سے زائد جگہ پر ہونے والی تعمیر کی ملبے کی صورت میں بننے والی قیمت کے مطالبے کا حق حاصل ہے،اس میں سے بھی اسے ملبے کی صورت میں بدلنے پر آنے والی اجرت کو منہا کیا جائے گا،لیکن چونکہ اس بھائی نے بقیہ ورثا کے اصرار پر اپنا سرمایہ اس مکان کی تعمیر میں خرچ کیا ہے،اس لئے اب تقسیم کے موقع پر بقیہ ورثا کو بھی اخلاقاً اور مروتاً ان کا خیال رکھنا چاہیے اور باہمی رضامندی سے کوئی ایسی قیمت طے کرنی چاہیے جس پر وہ بھائی خوشدلی سے آمادہ ہوجائے،جو مکان کی تعمیر پر آنے والی لاگت یا اس تعمیر کی موجودہ قیمت کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
اور اس حصے(پورشن) کے اوپر تعمیر کئے گئے دوکمرے چونکہ انہوں نے اپنے لئے نہیں تعمیر کروائے تھے،بلکہ بہن کے لئے تمام ورثا کی رضامندی سے تعمیر کروائے تھے،اس لئے اس کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات کی اصل رقم بطورِ قرض شمار ہوگی جس کے مطالبے کا انہیں حق حاصل ہے۔
حوالہ جات
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 81):
"(سئل) في رجل بنى بماله لنفسه قصرا في دار أبيه بإذنه ثم مات أبوه عنه وعن ورثة غيره فهل يكون القصر لبانيه ويكون كالمستعير؟
(الجواب) : نعم كما صرح بذلك في حاشية الأشباه من الوقف عند قوله كل من بنى في أرض غيره بأمره فهو لمالكها إلخ ومسألة العمارة كثيرة ذكرها في الفصول العمادية والفصولين وغيرها وعبارة المحشي بعد قوله ويكون كالمستعير فيكلف قلعه متى شاء".
"الدر المختار " (5/ 681):
" (ولو أعار أرضا للبناء والغرس صح) للعلم بالمنفعة (وله أن يرجع متى شاء) لما تقرر أنها غير لازمة (ويكلفه قلعهما إلا إذا كان فيه مضرة بالأرض فيتركان بالقيمة مقلوعين) لئلا تتلف أرضه ".
"رد المحتار" (6/ 747):
"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
12/ذی قعدہ1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |