83866 | خرید و فروخت کے احکام | دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت |
سوال
میں نے چھ سال پہلے ایک فیکٹری کی جگہ اٹھائیس لاکھ روپے میں خریدی، اس جگہ کے کاغذات میں مسائل تھے، ورنہ مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے یہ جگہ ساٹھ لاکھ روپے کی تھی، وکیل نے پہلے کم رقم کی بات کی، لیکن کام نہ بنا،دو تین لاکھ روپے مزید خرچ ہونے کے بعد اب وکیل نے سولہ لاکھ روپیہ بتایا ہے، جبکہ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے، ہمارے داماد کے پاس ایک مکان ہے، ہم نے ان پیسوں کے لیےاس کو تیار کیا، وہ مکان بیچ کر ہمیں بارہ لاکھ روپے دے گا، باقی کا انتظام ہمیں خود کرنا ہو گا، داماد یہ چاہتا ہے کہ جب تک ہم اس کے پیسے واپس نہیں کر دیتے اس کو مکان کا کرایہ ملتا رہے اور وہ پہلے اٹھائیس سو روپے تھا۔ داماد اور بیٹی کی جانب سے ایک شرط یہ ہے کہ مکان فروخت کر کے رقم وہ خود اپنے ہاتھوں سے وکیل کو دیں گے، تاکہ وہ رقم اسی مقصد میں خرچ ہو، جس کے لیے مکان فروخت کیا جا رہا ہے، تاکہ متوقع نتائج حاصل ہو سکیں، اس شرط پر غور کر کے درج ذیل سوالات کے جوابات دیں:
- ہم یہ چاہتے ہیں کہ داماد کو اٹھائیس سو روپے ملتے رہیں، تاکہ ضروریات متاثر نہ ہوں۔ اس کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ جس میں سودی معاملہ نہ ہو۔
- پیسوں کا انتظام ہو جانے کے بعد ہم داماد کے فروخت شدہ مکان کے ہم پلہ یا بہتر مکان دوبارہ خرید کردینا چاہتے ہیں، تاکہ داماد رقم دینے میں راضی رہے، اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے کہ جس میں سودی معاملہ نہ ہو؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں داماد کی طرف سے دی گئی رقم کی شرعی حیثیت قرض کی ہے اور شریعت کا اصول یہ ہے کہ کسی کو قرض دے کر اس پر نفع لینا جائز نہیں، یہ سود کے زمرے میں آتا ہے اور حدیث میں صراحتاً اس سے منع فرمایا گیا ہے۔لہذا سوال میں مذکورہ طریقہ سے داماد کا بارہ لاکھ روپیہ دے کر ماہانہ اٹھائیس سو روپے وصول کرنا شرعاً جائز نہیں، یہ سودی معاملہ وہ گا، جس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، البتہ اس کے متبادل کے طور پر آپ یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں کہ داماد سے مکان ادھار زیادہ قیمت مثلا چودہ یا پندرہ لاکھ روپے کا خرید لیں اور قیمت کی ادائیگی کے لیے مدت بھی مقرر کر لیں اور پھر اس کو آپ خود اپنے لیے بیچ کر حاصل شدہ رقم سے اپنی ضرورت پوری کر لیں اور بعد میں داماد کو کچھ ماہوار قسطوں کی شکل میں اور باقی طے شدہ مدت کے بعد ادا کر دیں۔
پھراس صورت میں بھی اصولی اعتبار سے داماد کو آپ لوگوں سے شرعاً اتنی ہی رقم واپس لینے کا حق حاصل ہے جتنی رقم کے عوض وہ مکان بیچے گا، اس سے زیادہ رقم یا اس کے عوض مکان کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، البتہ رقم واپس کرنے کےوقت اگر داماد راضی ہو تو آپ اپنی خوشی سے اس کے مطالبہ کے بغیراس رقم کے عوض مکان بھی خرید کر دے سکتےہیں، اگرچہ اس کی مالیت مکان کی قیمت سےزیادہ ہی ہو۔
حوالہ جات
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 83) دار إحياء التراث العربي:
القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط والفاسد فيها لا يبطله ولكنه يلغو شرطه رد شيء آخر فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا وكان عليه مثل ما قبض.
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (5/ 165) دار الفكر-بيروت:
القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا ) وكذا لو أقرضه طعاما بشرط رده في مكان آخر ( وكان عليه مثل ما قبض ) فإن قضاه أجود بلا شرط جاز ويجبر الدائن على قبول الأجود وقيل لا بحر وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه.
المبسوط للسرخسي (14/ 30) دار المعرفة - بيروت:
القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد من الشروط لا يبطله ولكن يلغو شرط رد شيء آخر فعليه أن يرد مثل المقبوض.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
14/ذوالقعدة 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |