83854 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
سوال: دوسراسوال یہ ہے کہ مرحوم محمدجان کےماں شریک بھائی حضور بخش نےان کی وفات کےبعد مرحوم کی ملکیتی زمین میں سےایک ٹکڑےکےبارےمیں دعوی کیاہےکہ مرحوم نےیہ زمین اپنی زندگی میں اسےہبہ کردی ہے،اس ہبہ پراس کےپاس ایک ہبہ نامہ بھی موجود ہے،جس پر دوگواہوں کےدستخط ہیں،لیکن مذکورہ زمین آج تک حضور بخش کےقبضےمیں نہیں آئی ،بلکہ وہ گزشتہ دس سالوں سےمرحوم کےبھتیجوں کےتصرف میں ہےتوکیا حضوربخش کےہبہ والےدعوی کااعتبار ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ہبہ کےمکمل ہونےکےلیےمکمل قبضہ میں دیناشرعاضروری ہے،صورت مسئولہ میں اگرچہ دستخط شدہ ہبہ نامہ موجود ہے،لیکن چونکہ زمین کاجوحصہ ہبہ کیاتھا،مرحوم نےاپنی زندگی میں موہوب لہ(جس کوہبہ کیا گیاہے)کےقبضہ میں نہیں دیا،لہذاشرعایہ ہبہ مکمل شمارنہیں ہوگااور مرحوم کی میراث میں شامل ہوکر تمام ورثہ میں میراث کےحصوں کےمطابق تقسیم کیاجائےگا۔
حوالہ جات
"شرح المجلۃ" 1 / 473 :ویملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"شرح المجلۃ" 1 /462 :وتتم بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
"المبسوط للسرخسي"12 / 83: ثم الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض عندنا۔۔۔۔وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة" معناه لا يثبت الحكم وهو الملك إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق والصحابة رضوان الله عليهم اتفقوا على هذا فقد ذكر أقاويلهم في الكتاب ولأن هذا عقد تبرع فلا يثبت الملك فيه بمجرد القبول كالوصية۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
13/ذیقعدہ 1445ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |