83885 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ایک ایسی عورت کے متعلق جس نے اپنا تیسر انکاح کیا، تیسرے شوہر کو اپنا فقط دوسرے نکاح کے متعلق بتایا کہ میں مطلقہ ہوں جب کہ اس عورت کی ماں، خالہ، اور بھائی کے علم میں تھا کے وہ پہلے والے شوہر کے نکاح میں ہے، تیسرے شوہر کو چھ سال کے بعد جب پتہ چلا تو وہ اپنی بیوی کے پہلے شوہر کے پاس معلومات کے لئے گیا تو پہلے شوہر نے اسٹامپ فارم پر حلفیہ گواہ کے سامنے لکھ کر دیا کے میں نے اب تک اپنی بیوی ( خیراں بنت محمد عارب) کو نہ طلاق دی ہے اور نہ ہی اس نے مجھ سے خلع لیا ہے، وہ گھر سے خود بھاگ کر کر نکل گئی ہے ، جبکہ تیسرے والے شوہر سے ایک دو سالا بچی بھی ہے،اس حوالہ سےدرج ذیل سوالات ہیں:
(1) کیاطلاق کے ذریعہ اب جدائی ہوگی یانکاح خود بخود فسخ ہوجائے گا؟نیزاس صورت میں عدت ہوگی؟عدت کاخرچہ دیناہوگایانہیں؟
(2) اگر طلاق ہوتی ہے تو عدت والا خرچہ اس عورت کو دینا ہو گا؟ ( جب کہ اس عورت نے غلط بیانی کی ہے)
(3) ان حالات میں بچی کی پرورش اور کفالت کا ذمہ دار کون ہو گا ؟ جبکہ وہ عورت دعویدار ہے کہ بچی کی پرورش اور کفالت کی حقدار میں ہوں۔
واضح رہے کہ اس عورت کووالدین بھی اپنے ساتھ رکھنے کے لئے تیارنہیں اور نہ ہی اس عورت کے پاس کوئی ذاتی مکان ہے،اس صورت میں اس کانان ونفقہ کس کے ذمہ ہے ؟اسی طرح بچہ کانان نفقہ کس کےذمہ ہے؟
تنقیح:لڑکی نے اس مرد سے نکاح کرتے وقت طلاق نامہ دکھایاتھا،اب معلوم ہواکہ اس لڑکی نے پہلے نکاح کے بعددوسرے مردسے نکاح کیا،اس مرد نے اس کوطلاق دی،اورطلاق نامہ بناکراس عورت کودیدیاتھا،اس عورت نے تیسرانکاح کرتے وقت یہ طلاق نامہ دکھایا،جبکہ اس شخص کویہ معلوم نہیں تھاکہ اس کانکاح اس دوسرے نکاح سے پہلے کہیں اوربھی ہواتھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شادی شدہ عورت کابغیرطلاق اورخلع لئے دوسری مردسے نکاح کرناناجائزاورحرام ہے،صورت مسؤلہ میں واقعی عورت نے طلاق اورخلع لئے بغیر نکاح کیا ہےتویہ بہت سخت گناہ کیاہے،عورت پرلازم ہے کہ صدق دل سے توبہ استغفارکرے۔
موجودہ نکاح کےحوالہ سے تفصیل یہ ہے کہ اگرمردکوسابقہ نکاح کاعلم نہیں تھااوراس عورت سےنکاح کرلیاتو یہ نکاح فاسدہے،مرد اور عورت دونوں پر فوراً اس نکاحِ فاسد کوختم کرنالازم ہے، اس نکاح کوختم کرنے کے لئے ضروری ہےکہ مرد عورت کو جدا ہونے کے الفاظ بولے،مثلاًیوں کہےکہ میں نے تجھے چھوڑ دیا ،الگ کردیاوغیرہ،اس طرح کے الفاظ کہنے سے یہ نکاحِ فاسد ختم ہوجاۓگا،اس کے بعدعورت عدت گزارے، واضح رہے کہ عدت کانان ونفقہ مرد پرلازم نہیں،نیز اس صورت میں بچہ کانسب اسی مرد(تیسراشوہر) سے ثابت ہوگااورنان ونفقہ بھی بچہ کااسی کے ذمہ ہے۔
اوراگرمردکوسابقہ نکاح کے باقی ہونے کاعلم تھا،پھربھی نکاح کرلیاتواس صورت میں یہ نکاح باطل ہے یعنی یہ نکاح منعقدہی نہیں ہوا،اس لئے اس نکاح کوختم کرنے کی ضرورت ہی نہیں،دونوں پرفوری طورپرالگ ہونالازم ہے،ابھی تک جوجسمانی تعلق رہاہے یہ زنا کے زمرہ میں ہے،جس پردونوں صدق دل سے توبہ استغفارکریں،اس صورت میں عدت نہیں،دونوں صورتوں میں بدستوریہ عورت پہلے مردکے نکاح میں ہے،واضح رہے کہ اس صورت میں بچہ کانسب دوسرے شخص سے ثابت نہیں ہوگا ،بلکہ عورت پہلے سے جس مرد کے نکاح میں ہے ،بچے کا نسب اسی سے ثابت ہوگا اوربچہ کی کفالت اورخرچہ بھی اسی کے ذمہ ہے،اگرپہلاشوہراپنابچہ ماننے سے انکارکرے تو اس کا انکاراس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک کہ شوہر عدالت میں لعان کے ذریعہ نسب کی نفی نہ کرے پھرقاضی لعان کی شرائط کے مطابق نسب کی نفی کا فیصلہ کردے، اس صورت میں بچہ کا نسب اس کی ماں سے ثابت ہوگا۔
حوالہ جات
فی الجوهرة النيرة شرح مختصر القدوري (ج 5 / ص 193):
وإن تزوج منكوحة الغير ووطئها إن كان لا يعلم أنها منكوحة غيره تجب العدة وتحرم على الأول إلى أن تنقضي العدة وإن علم أنها منكوحة لا تجب العدة ولا تحرم على الأول ؛ لأنه حينئذ يكون زنا محضا .
وفی رد المحتار (ج 10 / ص 97):
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا .
فی رد المحتار (ج 10 / ص 96):
نكح كافر مسلمة فولدت منه لا يثبت النسب منه ولا تجب العدة لأنه نكاح باطل .
وهذا صريح فيقدم على المفهوم فافهم ، ومقتضاه الفرق بين الفاسد والباطل في النكاح ، لكن في الفتح قبيل التكلم على نكاح المتعة .
أنه لا فرق بينهما في النكاح ، بخلاف البيع ، نعم في البزازية حكاية قولين في أن نكاح المحارم باطل أو فاسد .
والظاهر أن المراد بالباطل ما وجوده كعدمه ، ولذا لا يثبت النسب ولا العدة في نكاح المحارم أيضا كما يعلم مما سيأتي في الحدود .
وفی رد المحتار (ج 10 / ص 101(:
المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متارکۃ
وفی الفتاوى الهندية (ج 11 / ص 28(:
قال أصحابنا : لثبوت النسب ثلاث مراتب ( الأولى ) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد : والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان ، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط
الفتاوى الهندية - (ج 11 / ص 36):
ولا نفقة في النكاح الفاسد ، ولا في العدة منه۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (ج 17 / ص 251):
بعض أهل المدينة احتجوا بقوله ( ( الولد للفراش ) ) أن الرجل إذا نفي ولد امرأته لم ينتف ولم يلاعن به قالو،ا لأن الفراش يوجب حق الولد في إثبات نسبه من الزوج والمرأة فليس لهما إخراجه منه بلعان ولا غيره وقال جماهير الفقهاء من التابعين ومن بعدهم منهم الأئمة الأربعة وأصحابهم :إذا نفى الرجل ولد امرأته يلاعن وتنتفى نسبته ويلزم امه۔
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۱۶/ذی قعدہ ۱۴۴۵ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |