83894 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
شوہر کا بیان:
میں مسمیٰ ظہور حسین عرضی نویس کے پاس اسٹامپ پیپر پر طلاق لکھوانے گیا، میں نے اس سے کہا کہ طلاق لکھ دیں، اس نے تین دفعہ ( طلاق ۔ طلاق ۔ طلاق ) لکھ دی۔ میں نے طلاق نامہ پڑھے بغیر گھر میں لا کر رکھ دیا اور بیوی کو نہیں بتایا۔ جب بھی میرا بیوی سے جھگڑا ہوتا تھاتو میں اس کو کہتا تھا کہ میں نے تمہیں طلاق دیدینی ہے ۔ بالآخر میں نے وہ عرضی نویس کے ہاتھ کا لکھا طلاق نامہ مارچ 2024ء کو بیوی کے ہاتھ میں تھما دیا، جس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی تھیں۔ اسٹامپ پیپر میں دو نوٹس کا بھی ذکر ہے، حالانکہ میں نے کوئی نوٹس نہیں بھجوائے ، نہ میرے علم میں ہےاور نہ ہی میری بیوی کو کوئی نوٹس موصول ہوئے ہیں ۔ میں سمجھتا تھا کہ شریعت میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور میں نے نوٹس پر طلاق ۔ طلاق ۔ طلاق (۳دفعہ) لکھا ہوا دیکھا بھی نہیں۔ برائے کرم شریعت کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائی جائے۔ عرضی نویس کے لکھےہوئے اسٹامپ پیپر کی کاپی لف ہے ۔
بیوی کا بیان:
اللہ رکھی دختر محمد شریف کا کہنا ہے کہ میں نے تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کہتے ہوئے خودسنا ہے اور اس بات کے گواہ گاؤں کے عالم دین مولانا اکرم صاحب بھی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اب ہمیں آپس میں دوبارہ میاں بیوی والا رشتہ قائم کرنے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ ایک ہی گھر میں بات چیت کئے بغیر رہنا کیسا ہے؟ جبکہ آمنا سامنا ہو جاتاہے اور پردے کا اہتمام بھی نہیں ہوسکتا۔ خاوند کا کھانا پکانا ، ان کے کپڑے دھونا اور گھر کی صفائی کرنا کیسا ہے؟ میری ایک جواں سال بیٹی نویں جماعت میں زیرِ تعلیم ہے، والدہ ہونے کی حیثیت سے اس کی سرپرستی اور اخلاقی تربیت بہت ضروری ہے، میں اس کواپنے میکے میں یا کہیں اور بھی نہیں رکھ سکتی۔
وضاحت از مجیب:
(1)۔۔۔ منسلکہ اسٹامپ پیپر پر جون 2022 کا مہینہ اور سال درج ہے، اس میں ظہور حسین صاحب اور اللہ رکھی صاحبہ کی شادی، ناچاقی اور دو نوٹس کے تذکرے کے بعد لکھا ہے: "بالآخر۔۔مذکوریہ کے مطالبہ پر ۔۔۔اللہ رکھی مذکوریہ کو ۔۔۔ طلاق۔طلاق۔طلاق دے دی ہے۔ آج کے بعد مذکوریہ من۔۔ سے آزاد ہے، جہاں چاہے نکاح و شادی کر سکتی ہے۔"
(2)۔۔۔ سائلہ (اللہ رکھی) کے بیٹے (ماجد) سے فون پر بات ہوئی، اس نے والدہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ کہتی ہے کہ آج سے دس، بارہ سال پہلے ہماری لڑائی ہوئی، مسجد کے امام صاحب صلح کے لیے آئے تھے، اسی مجلس میں میرے شوہر نے مجھے تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کے الفاظ کہے۔ سائلہ کے بیٹے نے اپنی والدہ سے پوچھ کر بتایا کہ اس مولوی صاحب نے طلاق کی مجلس میں ہی ہمارا دوبارہ نکاح کرادیا اور ہم آپس میں رہنے لگے۔ وہ مولوی صاحب ہمارے گاؤں کے نہیں تھے، اب وہ یہاں موجود نہیں، چلے گئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا کچھ علم نہیں تھا، ابھی یہ بات سامنے آئی، ہم نے والدہ سے کہا کہ آپ نے یہ بات کیوں ظاہر نہیں کی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ سب چھوٹے تھے، اس وجہ سے میں نے کچھ نہیں کہا۔ ہماری والد اور والدہ کو اس وقت معلوم تھا کہ ہمارے لیے ساتھ رہنا درست نہیں اور یہ نکاح صحیح نہیں ہوا، لیکن صرف بچوں کی وجہ سے خاموش ہوگئے تھے۔
(3)۔۔۔ سائل (ظہور حسین) سے بھی فون پر بات ہوئی تو اس نے زبانی طلاق کا انکار نہیں کیا، بلکہ بیوی کی تصدیق کی، البتہ اس نے بتایا کہ یہ دس، بارہ سال پہلے کی نہیں، بلکہ تقریبا چار سال پہلے کی بات ہے۔ سائل نے یہ بھی بتایا کہ اسٹامپ پیپر پر موجود دستخط میرا ہی ہے اور یہ میں نے اسی وقت کیے تھے جب اسٹامپ پیپر بنایا تھا، میں چار جماعتیں پڑھا ہوا ہوں، لکھنا پڑھنا آتا ہے۔
(4)۔۔۔ سائل کے بیٹے نے بتایا: میرے والد صاحب کی عمر باسٹھ (62) سال، جبکہ والدہ کی عمر چالیس (40) سال ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں جب دس، بارہ سال یا شوہر کے قول کے مطابق چار سال پہلے ظہور حسین نے اپنی بیوی اللہ رکھی کو تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کہا تھا، اسی وقت تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور ان دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی تھی، جس کے بعد نہ تو رجوع درست تھا، نہ ہی تحلیل کے بغیر ان دونوں کا دوبارہ نکاح درست تھا۔ ان پر لازم تھا کہ اسی وقت فورا ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے، اگر اس مولوی صاحب نے واقعۃً طلاق کی مجلس میں ان دونوں کا دوبارہ نکاح کرایا تھا تو وہ مولوی صاحب، ظہور حسین صاحب اور اللہ رکھی صاحبہ تینوں سخت گناہ گار ہوئے ہیں، ان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر توبہ و استغفار کریں، آئندہ ایسا گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کریں اور اب فوراً ایک دوسرے سے علیحدہ ہوں۔ اگر ان تین طلاقوں کے بعد سے اللہ رکھی صاحبہ کو تین ماہواریاں آچکی ہیں تو اس کی عدت گزرچکی ہے، ایسی صورت میں اگر وہ کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔ بیٹی کی پرورش کا حق بلوغت تک والدہ کو ہے، بشرطیکہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے یہ حق ختم ہوتا ہو، مثلا بچی کے نامحرم سے شادی۔ بلوغت کے بعد والد اس کو اپنی تربیت میں لے سکتا ہے۔
ظہور حسین اور اللہ رکھی کا ساتھ رہنا، ایک دوسرے کے سامنے آنا اور خدمت کرنا جائز نہیں۔ اگر وہ دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ اللہ رکھی صاحبہ کا کسی اور شخص سے نکاح ہو اور ان کے درمیان ہمبستری بھی ہو، پھر اس شخص کا انتقال ہوجائے یا وہ اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے اور اس کی عدت گزر جائے تو اس کے بعد یہ دونوں باہم رضامندی سے دوبارہ نئے مہر پر گواہوں کے سامنے نکاح کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ تین طلاق کے بعد حلالہ کی شرط پر کسی سے نکاح جائز نہیں، حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے، لیکن اگر طلاق دینے کی بات طے شدہ نہ ہو، یعنی دوسرا نکاح بغیر کسی شرط کے ہو تو یہ جائز ہے، اگرچہ نکاح کرنے والے کی نیت بعد میں طلاق دینے کی ہو۔
جہاں تک منسلکہ طلاق نامہ کا تعلق ہے تو چونکہ وہ تقریبا دو سال پہلے بنایا گیا ہے، جبکہ ظہور حسین صاحب اس سے پہلے ہی اللہ رکھی صاحبہ کو تین طلاق دے چکے تھے اور ان کا نکاح ختم ہوچکا تھا، اس لیے اس طلاق نامے کا کوئی اعتبار نہیں۔
حوالہ جات
القرآن الکریم :
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ. البقرة :[ 230]
صحيح البخاري (2/791):
حدثني محمد بن بشار قال حدثنا يحيى عن عبيد الله قال حدثني القاسم بن محمد عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثًا فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی الله علیه و سلم أتحل للأول؟ قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.
الفتاوى الهندية (1/ 532):
المطلقة ثلاثا إذا جامعها زوجها في العدة مع علمه أنها حرام عليه ومع إقراره بالحرمة لاتستأنف العدة، ولكن يرجم الزوج، والمرأة كذلك إذا قالت: علمت بالحرمة، ووجدت شرائط الإحصان. ولو ادعى الشبهة بأن قال: ظننت أنها تحل لي تستأنف العدة بكل وطأة، وتتداخل مع الأولى، إلا أن تنقضي الأولى، فإذا انقضت الأولى وبقيت الثانية والثالثة كانت هذه عدة لوطء لا تستحق النفقة في هذه الحالة، وهذا الذي ذكرنا إذا جامعها مقرا بطلاقها، وأما إذا جامعها منكرا لطلاقها، فإنها تستقبل العدة كذا في الذخيرة.
المبسوط للسرخسي (6/ 16-14):
ولا خلاف بين العلماء أن النكاح الصحيح شرط الحل للزوج الأول بعد وقوع الثلاث عليها، والمذهب عند جمهور العلماء أن الدخول بها شرط أيضا، وقال سعيد بن المسيب رضي الله تعالى عنه ليس بشرط؛ لأن في القرآن شرط العقد فقط، ولا زيادة بالرأي، ولكن هذا قول غير معتبر، ولو قضى به قاض لا ينفذ قضاؤه، فإن شرط الدخول ثابت بالآثار المشهورة…..… قال: فإن تزوج بها الثاني على قصد أن يحللها للزوج الأول من غير أن يشترط ذلك في العقد صح النكاح ويثبت الحل للأول إذا دخل بها الثاني وفارقها. فإن شرط أن يحللها للأول فعند أبي حنيفة رحمه الله تعالى الجواب كذلك ويكره هذا الشرط، وعند أبي يوسف رحمه الله تعالى النكاح جائز ولكن لا تحل به للأول، وعند محمد رحمه الله تعالى النكاح فاسد؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "لعن الله المحلل والمحلل له"، وعقد النكاح سنة ونعمة، فما يستحق به المرء اللعن لا يكون نكاحا صحيحا، ولأن هذا في معنى شرط التوقيت، وشرط التوقيت مبطل للنكاح. ولكن أبو يوسف رحمه الله تعالى يقول: هذا ليس بتوقيت في النكاح، ولكنه استعجال لما هو مؤخر شرعا، فيعاقب بالحرمان، كمن قتل مورثه يحرم من الميراث. وأبو حنيفة رحمه الله تعالى يقول: هذا الشرط وراء ما يتم به العقد، فأكثر ما فيه أنه شرط فاسد، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة، ثم النهي عن هذا الشرط لمعنى في غير النكاح، فإن هذا النكاح شرعا موجب حلها للأول، فعرفنا أن النهي لمعنى في غير المنهي عنه، وذلك لا يؤثر في النكاح، فلهذا ثبت الحل للأول إذا دخل بها الثاني بحكم هذا النكاح الصحيح.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
18/ذو القعدۃ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |