83966 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ افکار حسین شاہ کے اپنی بیوی کے ساتھ کچھ اختلافات پیدا ہوئے جو کہ کافی عرصے تک چلتے رہے،اسی دوران اس کے ایک دوسری لڑکی سے سے فون پر کچھ تعلقات بن گئے اور یہ تعلق اس حد تک پہنچ گیا کہ لڑکی نے اس کو نکاح کا پیغام دیا اور ساتھ یہ شرط رکھ دی کہ سابقہ بیوی کو طلاق دینا لازم ہوگی،بصورتِ دیگر میں آپ سے نکاح نہیں کروں گی اور ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ جو تعلقات تو نے مجھ سے رکھے ہیں،خواہ وہ میسج کے ذریعے ہیں، یا کال کے ذریعے، وہ میں آپ کے سسر کو بھیج دوں گی۔
اس کشمکش کے دوران کسی دوسرے شخص نے افکار حسین شاہ اور اس کی بیوی کے درمیان جو اختلافات تھے ان سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تعلقات والی لڑکی کو افکار حسین شاہ کے موبائل سے مختلف طریقوں سے طلاق کے میسجزکئے،حالانکہ افکار حسین شاہ قرآن پر حلف اٹھانے کو تیار ہے کہ یہ میسجز نہ میں نے بھیجے ہیں اور نہ میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔
برائے مہربانی شریعت مطہرہ کی رو سے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کی بخوبی وضاحت فرمائیں کہ افکار حسین شاہ کی بیوی پرطلاق واقع ہوچکی ہے یا نہیں؟
تنقیح: ساتھ میں لف شدہ استفتاء اور جواب کا اس استفتاء سے یہ تعلق ہے کہ شوہر اب اس بات کا دعوی کررہا ہے کہ جن میسجز کی بنیاد پرساتھ میں لف شدہ طلاق کا فتوی جاری ہوا ہے وہ میسجز اس نے خود نہیں کئے،بلکہ کسی تیسرے شخص نے اس کی واٹسپ آئی ڈی ہیک کرکے یہ میسجز بھیجے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،وہ پوچھے گئے سوال کے مطابق جواب دیتا ہے،لہذا اگر سوال میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی نہ ہو تو مفتی کا جواب صورت مسئولہ پر منطبق نہیں ہوگا اور محض مفتی کے بتانے کی وجہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوگی،اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ:
اگر سوال میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت اور سچ پر مبنی ہے کہ شوہر نے نہ یہ میسجز خود کئے اور نہ کسی اور کے ذریعےبھجوائے،بلکہ تیسرے شخص نے اس کی اجازت کے بغیر اپنی طرف سے اس کی بیوی کو بھیجے ہیں تو پھر ان میسجز سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،کیونکہ طلاق دینے کا اختیار شوہر کے پاس ہے،جب تک وہ خود طلاق نہ دے یا کسی دوسرے کو طلاق دینے کا وکیل نہ بنائے،کسی دوسرے شخص کی جانب سے ازخود دی گئی طلاق اس کی بیوی پر واقع نہیں ہوتی۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (3/ 230):
"(قوله وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالده الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. وأفاد أنه لا يشترط كونه مسلما صحيحا طائعا عامدا فيقع طلاق العبد والسكران بسبب محظور والكافر والمريض والمكره والهازل والمخطئ كما سيأتي".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
21/ذی قعدہ1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |