03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اٹھارہ سال سے قبل بچیوں کی جبری شادی کرنے کا حکم
87736نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

1۔ آج کل لڑائی جھگڑے کی بعض صورتوں میں پنچایت یہ فیصلہ کر دیتی ہے کہ مدعی علیہ اپنی ایک یا دو بچیوں کی شادی مدعی یا اس کے بیٹوں سے کرے گا، جبکہ بچیاں بعض اوقات نابالغ اور بعض مرتبہ چودہ پندرہ سال کی ہوتی ہیں اور وہ اس نکاح پر راضی نہیں ہوتیں تو کیا پنچائت کا ایسا فیصلہ کرنا شرعا جائز ہے؟

2۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ والدین بغیر کسی مجبوری کے اپنی مرضی سےبچیوں کی18سال سے پہلے شادی کرا دیتے ہیں، تو اس طرح شادی کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔2: نکاح کی مبارک سنت پر عمل کرنے میں بہت سے مقاصد کا حصول مقصود ہوتا ہے، جیسے اولاد اور عفت و پاکدامنی کا حصول، دو خاندانوں کے درمیان رشتہ داری اور باہمی اخوت ومحبت  کا قائم ہونا، گناہوں سے بچنا اور احساسِ ذمہ داری وغیرہ،لیکن ان تمام مقاصد کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب شرعی اصولوں کی رعایت رکھتے ہوئے نکاح کیا جائے، نکاح سے متعلق اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر اگر نکاح کیا جائے تو یہی نکاح اور رشتہٴ ازدواج سکون کی بجائے انتہائی پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، جس سے نہ صرف زوجین بلکہ دونوں خاندانوں کے اعزہ واقارب سخت بے چینی اور اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کئی مرتبہ زوجین کے اختلاف کا اثر اولاد تک بھی جا پہنچتا ہے اور بعض اوقات طلاق تک نوبت جا پہنچتی ہے،اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد خصوصاً بچیوں کی شادی کرنے میں قرآن  وسنت کی تعلیمات کو ہرگز نظرانداز نہ کریں، اس سلسلہ میں نابلاغ اور بالغ دونوں قسم کی بچیوں کے نکاح سے متعلق درج ذیل تفصیل کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے:

  1. نابالغ بچی/بچہ کے نکاح کا حکم:

نابالغ بچہ اور بچی کے نکاح سے متعلق دو اصول ہیں:

پہلا اصول:

پہلا اصول یہ ہے کہ نابالغ (بچہ ہو یا بچی) میں چونکہ عقل اور فہم کم ہوتی ہے، اس لیے اسلام نے کسی بھی

صورت میں نابالغ کو اپنا نکاح خود کرنے کی اجازت نہیں دی، اس لیے تمام مذاہب کا اس پر اتفاق ہے کہ نابالغ بچی یا بچے کا خود کیا ہوا نکاح شرعاً باطل اور کالعدم ہے، کیونکہ کم عقلی میں بچے کے از خود کیے ہوئے نکاح میں مقاصدِ نکاح فوت ہونے کا قوی اندیشہ ہے، جبکہ شریعت نکاح کے معاملے میں مقاصدِ نکاح کو بہت اہمیت دیتی ہے۔

دوسرا اصول:

 دوسرا اصول یہ ہے کہ اگر بچہ یا بچی کے اولیاء کسی جگہ پر نکاح کرنے میں مصلحت محسوس کریں تو شریعت نے ان کو اپنے نابالغ بچوں کے نکاح کی اجازت دی ہے، جس پر قرآن، احادیثِ مبارکہ اور فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات میں تصریح موجود ہے، یہاں تک اس مسئلہ میں بھی تمام مذاہب  حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ متفق ہیں، پھر شرعاً اولیاء کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: پہلی قسم یہ ہے کہ ان میں بچے سے شفقت اور عقل دونوں چیزیں کامل درجے کی موجود ہوں اور وہ شریعت کی نظر میں صرف باپ اور دادا ہیں، ان میں شفقت اور عقل کے کامل ہونے کی وجہ سے شریعت  نے ان کے کیے ہوئے نکاح کو منعقد اور نافذ قرار دیا، اس لیے اولاد کو بالغ ہونے کے بعد ایسا نکاح ختم کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، البتہ ان میں بھی اگر باپ یا دادا کا سوء خیار (نابالغ کی مصلحت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ولی کا کسی دنیوی غرض اور لالچ کی بنیاد ر نکاح کرنا)  ثابت ہو جائے تو وہ نکاح فقہائے کرام رحمہم اللہ  کی عبارات کی روشنی میں سرے سے منعقدہی نہیں ہوتا، بلکہ شرعاً باطل اور کالعدم ہوتا ہے۔(البتہ دیگر بعض حضرات کے نزدیک ایسا نکاح موقوف ہوتا ہے، جس کو بالغ ہونے کے بعد اولاد کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔)

لہذا پنچائت (جس میں بچی کے باپ یا دادا شامل ہوں) اگر کسی معاملے میں نابالغ بچی  کے بارے میں یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم نے اپنی بچی کا نکاح فلاں سے کر دیا تو اگر یہ نکاح بچی کی مصلحت کو پس پشت ڈال کر کسی دنیوی لالچ اور غرض کی بناء پر کیا گیا ہے تو یہ نکاح بعض علماء کے نزدیک سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا، البتہ بعض کے نزدیک بچی کی اجازت پر موقوف ہو گا اور یہ اجازت بالغ ہونے کے بعد معتبر شمار ہو گی، یعنی بالغ ہونے کے بعد اگر بچی چاہے تو اس کو ختم کر دے اور اگر چاہے اس کو برقرار رکھے۔

دوسری قسم: دوسری قسم ان اولیاء کی ہے جن میں عقل تو کامل ہو، مگر شفقت کامل نہ ہو، اس میں باپ دادا کے علاوہ تمام رشتہ دار شامل ہیں، جیسے بھائی، چچا اور ماموں وغیرہ۔ ان کے نکاح کا حکم یہ ہے کہ بچہ اور بچی کو بالغ ہونے کے بعد ان کے کیے ہوئے نکاح کو ختم کرنے کا اختیار ہو گا، اگر چاہے تو اس کو باقی رکھے اور اگر چاہے تو اس کو  عدالت کے ذریعہ فسخ کرا دے، بشرطیکہ بچی نے بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو، اس کی مزید بھی شرائط ہیں، جن کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 66) دار الفكر-بيروت:

وفي شرح المجمع حتى لو عرف من الأب سوءالاختيار لسفهه أو لطمعه لا يجوز عقده إجماعا. اهـ. (قوله وإن عرف لا يصح النكاح) استشكل ذلك في فتح القدير بما في النوازل: لو زوج بنته الصغيرة ممن ينكر أنه يشرب المسكر، فإذا هو مدمن له وقالت لا أرضى بالنكاح أي ما بعد ما كبرت إن لم يكن يعرفه الأب بشربه وكان غلبة أهل بيته صالحين فالنكاح باطل لأنه إنما زوج على الظن أنه كفء اهـ قال إذ يقتضي أنه لو عرف الأب بشربه فالنكاح نافذ مع أن من زوج بنته الصغيرة القابلة للتخلق بالخير والشر ممن يعلم أنه شريب فاسق فسوء اختياره ظاهر. ثم أجاب بأنه لا يلزم من تحقق سوء اختياره بذلك أن يكون معروفا به فلا يلزم بطلان النكاح عنه تحقق سوء الاختيار مع أنه لم يتحقق للناس كونه معروفا بمثل ذلك. اهـ.

والحاصل: أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيئ الاختيار واشتهر به عند الناس، فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله.

الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 193) دار احياء التراث العربي – بيروت:

قال: " فإن زوجهما الأب أو الجد " يعني الصغير والصغيرة " فلا خيار لهما " بعد بلوغهما لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ " وإن زوجهما غير الأب والجد فلكل واحد منهما الخيار إذا بلغ إن شاء أقام على النكاح وإن شاء فسخ " وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله.

  1. بالغ بچی کے نکاح کا شرعی حکم:

بالغ بچی کے نکاح سے متعلق بھی شریعت کے دو اصول ہیں:

پہلا اصول: 

پہلا اصول یہ ہے کہ بالغ بچی کا نکاح اولیاء میں سے کسی بھی فرد کو زبردستی کرنے کی قطعاً اجازت نہیں، اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بہت واضح ہیں اور صحیح احادیث میں بھی اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے کہ لڑکی سے پوچھ کر نکاح کیا جائے،  خواہ وہ ثیبہ ہو یا باکرہ، بہر صورت ولی کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ اپنی عاقالہ بالغہ  بیٹی کا نکاح کرنے سے پہلے اس سے اجازت لے، چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث ملاحظہ فرمائیں:

مختصر صحيح الإمام البخاري (3/ 367):

عن أبي هريرة أن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال:"لا تنكح الأيم حتى تستأمر، ولا تنكح البكر حتى تستأذن". قالوا: يا رسول الله! وكيف إذنها. قال: أن تسكت.

اس لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس پر اتفاق کیا کہ اگر عاقلہ بالغہ لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کے ولی نے نکاح کر دیا تو یہ نکاح اس کی اجازت پر موقوف ہو گا، اگر چاہے تو اس کو برقرار رکھے اگر چاہے تو اس کو فسخ کردے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے بھی واقعات پیش کیے گئے کہ جن میں لڑکی کا نکاح اس کے ولی نے اس کی اجازت کے بغیر کیا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو  نکاح ختم کرنے کا اختیار دیا، چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح ان کے والد نے کسی شخص کے ساتھ کر  دیا، ان کی ایک شادی اس سے پہلے ہو چکی تھی (اور اب وہ بیوہ تھیں) اس نکاح کو انہوں نے ناپسند کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر (اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر دی) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کر دیا، چنانچہ حدیث کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

صحيح البخاري :رقم الحدیث : 6945:

عن خنساء بنت خذام الانصارية،" إن أباها زوجها وهي ثيب، فكرهت ذلك، فأتت النبي صلى الله عليه وسلم فرد نكاحها".

لہذا آج کل پنچائت اور بعض خاندانوں کے بڑوں کا اپنی بچیوں کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر کرنا بالکل خلافِ شریعت ہے، جس کی شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی، ایسی صورت میں لڑکی کو چاہیے کہ وہ زبانی یا دستخط کے ذریعہ اس نکاح کو قبول نہ کرے، جب تک وہ قبول نہیں کرے گی اس وقت تک یہ نکاح شرعا منعقد نہیں ہو گا۔

الفتاوی الهندیة (كتاب النكاح، الباب الأول، 269/1، ط: دار الفكر بيروت):

"(ومنها) رضا المرأة إذا كانت بالغة بكرا كانت أو ثيبا فلا يملك الولي إجبارها على النكاح عندنا."

دوسرا اصول:

دوسرا اصول یہ ہے کہ لڑکی  اولیاء کی اجازت اور ان کے مشورہ کے بغیر ازخود نکاح نہ کرے، بلکہ لڑکی اپنے

اولیاء کی اجازت اور مشورہ سے نکاح کرے اور یہی نکاح کا مسنون طریقہ ہے، کیونکہ لڑکی کے ازخود فیصلہ کرنے میں کئی مسائل کا سامنا ہو سکتاہے، البتہ اگر لڑکی(خواہ وہ باکرہ ہو یا ثیبہ) اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو کیا یہ نکاح منعقد ہو گا؟ اس میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے، حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ عمل خلاف سنت اور شریعت کی تعلیمات کے منافی ہے، لیکن عاقلہ بالغہ ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح اس شرط کے ساتھ درست ہو گا کہ وہ کفو یعنی اپنے ہم پلہ اور ہمسر شخص سے نکاح کرے، ورنہ  حنفیہ کی ظاہر الروایہ کے مطابق اس کے اولیاء کویہ نکاح عدالت کے ذریعہ ختم کرانے کا اختیار ہو گا، لیکن آج کل زمانہ کے تغیر کی وجہ سے متاخرین حضرات نے فتوی اس پر دیا ہے کہ غیر کفو میں بغیر ولی کی اجازت کے لڑکی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا، جیسا کہ فتاوی قاضی خان اور فتاوی ہندیہ وغیرہ میں تصریح ہے، حنفیہ کے علاوہ  دیگرشافعی،مالکی اورحنبلی فقہائے کرام کے نزدیک لڑکی کفو میں نکاح کرے یا غیر کفو میں بہر دو صورت اس کا نکاح باطل شمار ہو گا۔

حوالہ جات

صحيح البخاري ( 4840 ):

 وقد تزوج النبي صلى الله عليه وسلم عائشة رضي الله عنها وهي بنت ست سنين ، وأُدخلت عليه وهي بنت تسع .  

مسند أبي داود الطيالسي (3/ 72):

 عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا نكاح إلا بولي، وأيما امرأة نكحت بغير ولي فنكاحها باطل باطل باطل، فإن لم يكن لها ولي فالسلطان ولي من لا ولي له»

ردالمحتار(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب الولي، 55/3۔56، ط: سعید):

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا."

المغني لابن قدامة (7/ 30):

وقال ابن قدامة رحمه الله : " : وإذا زوج الرجل ابنته البكر ، فوضعها في كفاءة : فالنكاح ثابت ... أما البكر الصغيرة ، فلا خلاف فيها . قال ابن المنذر أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم ، أن نكاح الأب ابنته البكر الصغيرة جائز ، إذا زوجها من كفء ، ويجوز له تزويجها مع كراهيتها وامتناعها .

وقد دل على جواز تزويج الصغيرة قول الله تعالى : ( وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ) فجعل للائي لم يحضن عدة ثلاثة أشهر ، ولا تكون العدة ثلاثة أشهر إلا من طلاق في نكاح أو فسخ ، فدل ذلك على أنها تزوج وتطلق ، ولا إذن لها فيعتبر .

وقالت عائشة رضي الله عنهما : ( تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا ابنة ست ، وبنى بي وأنا ابنة تسع ) متفق عليه . ومعلوم أنها لم تكن في تلك الحال ممن يعتبر إذنها .

وروى الأثرم ، أن قُدامة بن مظعون تزوج ابنة الزبير حين نفست ، فقيل له ؟ فقال : ابنة الزبير؛ إن مت ورثتني ، وإن عشت كانت امرأتي ، وزوج علي ابنته أم كلثوم وهي صغيرة عمر بن الخطاب رضي الله عنهما " انتهى .

الإقناع في مسائل الإجماع (2/ 6) الناشر: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر:

2137 - وجائز للرجل أن يعقد على ابنته: صغيرة كانت أن كبيرة، كرهت ذلك أم رضيته إذا كان على وجه المصلحة، ولا تنازع بين أهل العلم في ذلك.

2138 - وأجمعوا أن تزويج أب الصغيرة لها جائز عليها، إلا ابن شبرمة فإنه قال: لا يجوز نكاح صغيرة على حال.

2139 - والأمة مجمعة على أن الولي إذا زوج البكر البالغ برضاها أن النكاح جائز.

الشرح الكبيرلابن قدامة رحمه الله (7/386) :

" فأما الإناث : فللأب تزويج ابنته البكر الصغيرة التي لم تبلغ تسع سنين بغير خلاف   إذا وضعها في كفاءة . قال ابن المنذر : أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم أن نكاح الأب ابنته الصغيرة جائز إذا زوجها من كفء ، يجوز له ذلك مع كراهتها وامتناعها " انتهى .

مجموع الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله  ( 32 / 39 ) :

" المرأة لا ينبغي لأحد أن يزوجها إلا بإذنها كما أمر النبي صلى الله عليه وسلم ، فإن كرهت ذلك : لم تُجبر على النكاح ، إلا الصغيرة البكر ، فإن أباها يزوجها ، ولا إذن لها " انتهى.

الاستذكارلابن عبد البر المالكي: ( 16 / 49):

" أجمع العلماء على أن للأب أن يزوج ابنته الصغيرة ولا يشاورها ، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوج عائشة بنت أبي بكر، وهي صغيرة بنت ست سنين، أو سبع سنين؛ أنكحه إياها أبوها" انتهى.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

3/ذوالحجة 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب