03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹےکوجائیدادکاکیس لڑنےاور بیچنےکاوکیل بنایاتوکیابیٹاخودخریدسکتاہے؟
83997میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین مسائل ذیل کے بارے میں - میری والدہ کی جائیداد میں سے کچھ حصہ ہے، ہم تین بھائی ہیں، ایک بھائی نے اپنا حصہ لینے سے صاف منع کر دیا کہ میں اپنا حصہ نہیں لوں گا ،جو دوسرا بھائی تھا وہ  بھی پانچ مہینہ کے بعد پیچھے ہٹ گیا، زمین کا کیس ہے جو عرصہ تین سال سے چل رہا ہے،  میں نے اپنی والدہ سے بات کی کہ یہ سارا کیس اور جائیداددوسرے کسی آدمی کو بیچ دیتا ہوں تو والدہ نے کہاکہ  آپ بیچ دو ،تو میں نے پچاس لاکھ روپے میں پورا کیس بیچنے کا ارادہ کیاہے۔

 کیا میں اپنی والدہ سے اس طرح کا کوئی معاملہ کر سکتا ہوں کہ سارا کیس اور جائیداد میں خود ہی خرید لوں اور میں خود اس میں اکیلے فریق بن جاؤں ؟ کیا شرعا یہ  صحیح ہے ؟

 میری والدہ نے مجھے یہ بات بھی کہی ہےکہ " تمہاراجو وقت اور پیسہ اس کیس میں لگ رہا ہے،اسکے الگ سےمیں  ہر مہینہ تیس ہزار دونگی، اور یہ کیس لڑنے کےلیے جو تم نے اپنے زیورات وغیرہ بیچےہیں  اور جو قرضہ لیا ہے، اسکےبھی  الگ سے پیسے دونگی، اسکے بعد میری مرضی جسکو جتنا حصہ دوں "۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ والدہ ابھی زندہ ہیں،لہذا والدہ کی یہ جائیدادشرعامیراث نہیں،یہ والدہ کی میراث اس وقت بنےگی،جب خدانخواستہ والدہ کاانتقال ہوگا،چنانچہ انتقال کی صورت میں بوقت انتقال والدہ کی ملکیتی جائیدادکومیراث کےطورپراس وقت موجودان کےشرعی ورثہ میں تقسیم کیاجائےگا۔

صورت مسئولہ میں اگروالدہ اپنی جائیداد(جس پر کیس چل رہاہے)کوگواہوں سےثابت کردیں کہ واقعتا یہ جائیدادوالدہ ہی کی ہےتوان کی ملکیت ثابت ہوگی،اوراس کےبعد جائیداداوراس جائیدادسےمتعلقہ کیس کوبیچنابھی شرعادرست ہوگا،لہذاجائیدادکی مطلوبہ قیمت اداء کردی جائےتو اس کی ملکیت حاصل کی جاسکتی ہے۔

والدہ سےبات کرتےوقت آپ نےوضاحت کی ہےکہ یہ کیس میں کسی اورکوبیچونگااوروالدہ نےاس کیس کولڑنےکےلیےباقاعدہ آپ کو پیسےدینےکابھی کہاہے،شرعااس کامطلب یہ ہےکہ آپ اس کیس کو بیچنےمیں والدہ کےوکیل(وکیل بالبیع) ہیں اوراس وکالت کی فیس بھی آپ وصول کریں گے۔

وکالت کامسئلہ یہ ہےکہ وکیل بالبیع (کسی چیزکوبیچنےکاوکیل) بعینہ   وہی چیز اپنی ذات کےلیےنہیں خریدسکتا،الایہ  کہ وکیل بنانےوالا خوداس کی اجازت دیدےکہ آپ خودبھی اس کو خریدسکتےہیں۔

موجودہ صورت میں  اگروالدہ آپ کواجازت دےدیں تو مارکیٹ ویلیو کےمطابق اس کی ادائیگی کرکےآپ یہ جائیدادخریدسکتےہیں،ایسی صورت میں یہ آپ کی ذاتی شمار ہوگی اوروالدہ کےانتقال کےبعد میراث کےطورپرتقسیم بھی نہیں ہوگی۔

والدہ کی طرف سےجوقیمت طےکی گئی ہےبظاہروہ صرف کیس لڑنےکی ہے،آپ چونکہ مکمل  جائیدادخریدناچاہ رہےہیں،توجائیدادکی  مجموعی طورپر مارکیٹ میں جو قیمت ہو،وہ طےکی جائےتویہ معاملہ شرعادرست ہوجائےگا۔

حوالہ جات

"الفتاوى الهندية "27 / 126:

الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه لأن الواحد لا يكون مشتريا وبائعا كذا في الوجيز للكردري۔

"رد المحتار" 22 / 342:

الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه ؛ لأن الواحد لا يكون مشتريا وبائعا فيبيعه من غيره ثم يشتريه منه ، وإن أمره الموكل أن يبيعه من نفسه وأولاده الصغار أو ممن لا تقبل شهادته فباع منهم جاز بزازية كذا في البحر ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

24/ذیقعدہ1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب