84130 | خرید و فروخت کے احکام | زمین،باغات،کھیتی اور پھلوں کے احکام و مسائل |
سوال
خالد (بھتیجا) اور عمر (چچا) کی زرعی زمین ساتھ ساتھ تھیں۔ زمین ہر ایک کی الگ الگ تھی، یعنی سروے نمبر الگ الگ تھے، شراکت داری نہیں تھی اور سرکاری طور پر ملکیت کے کاغذات بھی الگ الگ تھے۔ ان دونوں نے اپنی زمین کی سرکاری طور پر کبھی ناپ نہیں کروائی، بلکہ اپنی سمجھ کے مطابق سروے نمبروں کی حد بندی کرکے زمین تقسیم کر رکھی تھی۔
کچھ سال قبل خالد نے اپنی زمین اسد کو فروخت کی اور عمر نے اپنی زمین شیر خان کو فروخت کی۔ اسد کو محسوس ہوا کہ زمین کم پڑ رہی ہے، اس پر اس نے سرکاری ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں سے کئی مرتبہ پرائیویٹ اور ایک مرتبہ آفیشل طور پر زمین ناپ کروائی، اس ناپ سے ظاہر ہوا کہ کافی زمین شیر خان کی طرف نکلتی ہے اور کافی زمین میاں بخش و دیگر کی طرف نکلتی ہے، اور یہ ظاہر ہوا کہ ان لوگوں کی زمین آگے کسی اور کے پاس نکلتی ہے۔ ناپ کے دوران متعلقہ لوگ (ساتھ والی زمین کے مالکان) ساتھ تھے، انہوں نے بھی اطمینان کا اظہار کیا کہ ناپ صحیح ہوا ہے۔ لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اسد کی جو زمین آپ کے پاس نکلتی ہے، وہ اس کو واپس کریں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ زمین واقعی ہمارے پاس نکلتی ہے، البتہ ہماری اتنی زمین کسی اور کے پاس نکلتی ہے، پہلے آپ ہمیں وہ زمین دلوائیں، پھر ہم آپ کو آپ کی زمین واپس دیں گے۔
اب مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ خالد نے ذمہ داری لی تھی کہ اگر کسی کے پاس زمین نکلی تو وہ واپس کرائے گا، لیکن اس سے بھی کچھ نہیں ہو پا رہا۔ اس لیے اسد نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، ڈپٹی کمشنر نے قانون کے مطابق متعلقہ لوگوں کا موقف سننے کے لیے کئی بار انہیں اپنے دفتر بلایا، لیکن یہ لوگ وہاں نہیں جاتے۔ اب قانون کے مطابق ڈپٹی کمشنر یک طرفہ طور پر اس زمین سے ان لوگوں کا قبضہ ختم کروانے کا حکم دے گا،جس میں وہ پولیس کا استعمال بھی کرسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسد کے لیے سرکاری طور پر ان لوگوں کا قبضہ ختم کروا کر یہ زمین اپنے قبضہ میں لینا شرعاً درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا صورت اختیار کی جائے؟ واضح رہے کہ زمین کا انتقال وغیرہ ہوچکا ہے، رقم کی ادائیگی بھی ہوچکی ہے، البتہ اسد کو جتنی زمین کا قبضہ نہیں ملا، اس کی صرف ایک تہائی رقم کی ادائیگی کی گئی ہے، جبکہ دو تہائی رقم کے بارے میں یہ طے ہوا ہے کہ خالد وہ رقم اسد کو زمین کا قبضہ دلوانے کے بعد وصول کرے گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو اسد کے لیے حکومتی تعاون کے ذریعے اپنی زمین سے ناجائز قبضہ ختم کرانا درست ہے، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع (6/ 152):
القاضي له ولاية حفظ أموال الناس وصيانتها عن الهلاك.
شرح مختصر الطحاوي للجصاص (4/ 184):
الحاكم منصوب لحفظ أموال الناس وحقوقهم.
فتاوى قاضيخان (2/ 147):
شراء المغصوب صحيح، ذكره الكرخي في مختصره، غير أن البائع إذا عجز عن التسليم كان للمشتري حق الفسخ …… وفي ظاهر الرواية لا يجوز بيع المغصوب من غير الغاصب، إلا أن يكون الغاصب مقرًا بالغصب أو كان للمغصوب منه بينة.
الفتاوى الهندية (3/ 111):
إذا باع المغصوب من غير الغاصب فهو موقوف، هو الصحيح، فإن أقر الغاصب تم البيع ولزمه، وإن جحد وللمغصوب منه بينة فكذلك، كذا في الغياثية، وإن لم يكن له بينة ولم يسلمه حتى هلك انتقض البيع كذا في الذخيرة.
فقہ البیوع (1/340):
أما إذا کان المبیع بید غاصبٍ معین، فباعه المالك إلی غیر الغاصب، انعقد البیع موقوفاً علی التسلیم؛ لأن المغصوب فی هذه الصورة مقدور التسلیم بقدرة السلطان والقاضی، و جماعة المسلمین، إلا أنه لم ینفذ فی الحال لقیام ید الغاصب صورةً، فإذا سلم زال المانع فینفذ.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
22/ذو الحجۃ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |